54سال پرانا … 30 نومبر

December 03, 2021

حرف و حکایت … ظفر تنویر
اس کی عمر صرف 14 برس تھی جب اس نے اپنی آنکھوں میں یہ خواب سجایا ایک ایسی ریاست کا جس میں حق حکمرانی صرف عوام کا ہوگا، وہی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہوں گے اور وہی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں گے جہاں سب کو ایک ہی گھاٹ سے پانی مل سکے گا، ہر طرف مساوات ہوگی، برابری کا راج ہوگا اور آجر کو بھی مزدور کا پورا پورا حق دینا پڑے گا۔ 1967ء میں ابھی اس نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا جب یہ خواب اس نے اپنی آنکھوں میں سجائے، اس کی آنکھوں میں یہ خواب پرونے والا ایک سحرانگیز شخص تھا جس نے ملک کی 20 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے سے پہلے سیاسی کارکنوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ پاکستان میں ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے، صرف اقتدار اس سیاسی جماعت کا نطریہ نہ تھا بلکہ عوام کو ان کے وہ حقوق واپس دلوانا تھے جو کب کے سلب کئے جاچکے تھے اس 14سالہ بچے پر بھی یہ واضح ہو گیا تھا کہ پاکستان میں صرف 22 خاندان ہی ایسے ہیں جن کی مٹھی میں نہ صرف پورے ملک کی دولت ہے بلکہ دولت کی یہ طاقت ان پر اقتدار اور حق حکمرانی کے دروازے بھی کھولے ہوئے ہے۔ 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اسے یہ بھی یقین دلایا گیا کہ ایک مضبوط جمہوری معاشرہ ہی ہمیں اپنی مرضی کی عوام دوست ریاست بنانے میں مدد دے سکتا ہے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ،وہ 14 سال کا بچہ 68 برس کا بوڑھا ہو چکا ہے لیکن تمام تر سختیوں، تنگیوں اور جبر کے باوجود اس کی آنکھوں میں سجے خواب ابھی تک دھندلائے نہیں بلکہ پہلے دن کی طرح اجلے ہیں۔ 30 نومبر کو جدوجہد کی قسم کھانے والوں کی لگن اور انتھک محنت نے 3 برس بعد ہی پاکستان کے پہلے براہ راست عام انتخابات بھی دیکھے، اسے یاد ہے کہ جنرل یحیٰ خان نے دسمبر 1970ء میں انتخابات کا اعلان کیا تو وہ راولپنڈی میں تھا اور عوام تھے کہ بھٹو کے کہے ہر لفظ پر جوش و ولولہ میں آجاتے ،عام تاثر یہی تھا کہ مغربی پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں (جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام، کونسل مسلم لیگ اور خان قیوم کی مسلم لیگ) قابل ذکر کامیابی حاصل کریں گی، ملک بھر میں پیپلزپارٹی اور اس کے سوشل ازم کے نعرے کے خلاف بڑی دھوم دھام سے ’’شوکت اسلام‘‘ کے میلوں لمبے جلوس نکالے گئے لیکن انتخابی نتائج سامنے آئے تو مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری جس پر ایک اخبار نے یہ سرخی جما دی کہ ’’اسلام جیت گیا اسلام پسند ہار گئے‘‘ پیپلزپارٹی کے اقتدار کے ابتدائی سال بہت مشکل حالات کے تھے، پاکستان کے 92 ہزار جوان بھارت کی قید میں تھے اور پانچ ہزار مربع میل سے زائد کا علاقہ بھارت کے قبضہ میں تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو شاید مشکل حالات میں ہی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے تھے، انہوں نے بھارت سے جنگی قیدی بھی آزاد کروائے ،مفتوحہ علاقہ بھی واپس لیا اور ملک میں صحت، تعلیم اور زراعت میں غیر معمولی اصلاحات کرتے ہوئے بہت سے نجی اداروں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ 1973ء میں نافذ کیا جانے والا پاکستان کا پہلا آئین اس لحاظ سے بھی ایک عظیم کامیابی تھا کہ اس آئین کو پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کی یکساں حمایت حاصل تھی پھر لاہور میں ہونے والی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس نے پاکستان کو اسلامی دنیا کا قائدانہ کردار نبھاتے ہوئے بھی دیکھا، وہ کہتا ہے کہ ا س تمام عرصہ میں اس کی آنکھوں میں سجے خواب اگر کبھی دھندلائے تو صرف اس وقت جب 77/76 میں پارٹی چیئرمین نے طبقاتی جدوجہد کا درس دینے کے باوجود ان لوگوں سے ہاتھ ملانا شروع کردیاجن کے ہاتھوں پر مزدوروں اور کسانوں کا لہو لگا ہواتھا لیکن میری آنکھوں میں آنے والی دھند اس روز خود اتر گئی جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کال کوٹھری میں بیٹھے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ’’دو طبقات کے مابین ایک پل بنانا ایک خواب ہے اور یہ جنگ اور یہ جدوجہد جاری رہنا چاہئے اس وقت تک جب تک ایک طبقہ کو دوسرے پر مکمل فتح نہیں مل جاتی‘‘۔ اب 68 برس کے بوڑھے کی آنکھوں میں صرف خواب سجا ہے ایک ایسے پاکستان کا جہاں لٹے، پسے اور مسلسل جہد مسلسل کا حصہ بنا طبقہ پاکستان کا اصل حکمران نہیں بن جاتا، وہ جو کسی سے ڈکٹیشن نہ لیتا ہو ،ایک ایسی ریاست جس کا خواب دیکھتے ہوئے پاکستان کے مزدور شاعر تنویر عباس سپرا نے کہا تھا
قارون کے بیٹو میری للکار کو سن لو
اب ایسی مساوات یہاں آکر رہے گی
یا میرے بھی بچوں کو یہاں رزق ملے گا
یا تیرے بھی بچے اب فاقوں سے مریں گے