سچ تو یہ ہے

January 03, 2022

وکی لیکس ہو، پانامہ لیکس ہو یا پھر پنڈورا لیک، آصف علی زرداری ہر بار سرخرو ہوئے، مگر پھر بھی اہلِ چمن کے الزامات ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے۔ کرپشن اور دولت کی لوٹ مار کے جتنے عالمی اسکینڈلز آئے ہیں ان میں عمران خان، ان کی بہنیں، ان کی جماعت کے لوگ، نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت کئی ریٹائرڈ طاقت ور افرادکسی نہ کسی سطح پر پاکستان کا نام روش کرتے دکھائی دیئے مگر پانامہ پیپرز سے لے کر پینڈورہ پیپرز تک سب چیخ چیخ کر گواہی دیتے نظر آئے کہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘۔ آصف علی زرداری اس میدان میں بھی تلخ سے تلخ اور سخت سے سخت حالات میں بھی علاج کے بہانے ملک چھوڑنے کے قائل نہیں رہے۔ سیاست کے میدان میں جو کارنامے آصف علی زرداری نے انجام دیئے، اس پر ہم جیسے طالب علم تو ساری زندگی یہی خواہش کرتے رہے کہ ان سے ٹیوشن لی جائے۔ ہر شعبہ زندگی کا کوئی نہ کوئی ماہر ہوتا ہے اور پاکستانی سیاست کے ماہر آصف علی زرداری ہیں۔ پی ڈی ایم بنا کر آصف علی زرداری نے جو حشر ن لیگ کا کیا اس سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زرداری صاحب سیاستدان نہیں بلکہ سیاست کی وہ یونیورسٹی ہیں جہاں سے سیاسی کارکنان کو سبق لینے کے لیے داخلہ درکار ہوتا ہے۔یہاں میں یہ انکشاف کرتا چلوں کہ آصف علی زرداری کو پچھلے سال یہ آفر دی گئی کہ آپ اگر علاج کروانے کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں تو آپ کو بھی نواز شریف کی طرح یہ سہولت فراہم کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ آپ واپس نہیں آئیں گے مگر شائد وہ تو حُر ہے اور حُر کب ہارے ہوئے لشکر کا حصہ بنا ہے اس نے پاکستان میں رہ کر لڑنے، مرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر قائم دائم ہے۔

آصف علی زرداری پر شہید بینظیر بھٹو سے شادی سے پہلے ایک بھی کیس نہیں تھا، شادی کے بعد آصف علی زرداری پر کون سا اور کس قسم کا کیس ہے ،جو نہ بنا ہو۔ 11سال قید و بندمیں رہنے والے آصف علی زرداری پر کوئی ایک کیس بھی ثابت نہ ہوا مگر 11سالہ قید بھگتنا پڑی جو بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد بھی بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ آصف علی زرداری کی جمہوریت اور پاکستان کیلئے کی گئی کاوشوں کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر اور جماعت صیغہ راز میں ہی رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اور آصف علی زرداری نے جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان کے ثمرات آنی والی کئی نسلوں کو ملتے رہیں گے۔ 27 دسمبر جب بینظیر بھٹو کا لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل ہوا، تو پوری جماعت تذبذب کا شکار ہوگئی کہ اب جماعت کا کیا بنے گا۔ ایسے میں کچھ روز بعد سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی سیاسی وِل سامنے آئی۔ میڈیا میں آج تک یہ غلط تاثر قائم ہے کہ اس وراثتی خط میں شہید بینظیر بھٹو نے پی پی پی آصف علی زرداری کے سپرد کرنے کا کہا، یہ بالکل ایک غلط تاثر ہے کیوں کہ خط میں بینظیر بھٹو نے لکھا تھا کہ اگر مجھے قتل کردیا گیا تو سی ای سی جسے چاہے اسے قیادت کے لیے منتخب کر لے، چاہے تو آصف علی زرداری کا آپشن بھی کھلا رکھے، کیوں کہ آصف علی زرداری نے میرا ساتھ مشکل سے مشکل وقت میں بھی نہ چھوڑا اور وہ پارٹی کے لیے ہر کٹھن دور سے گزرا ہے، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی سی ای سی نے یہی بہتر سمجھا کہ آصف علی زرداری کو قیادت سونپی جائے، آصف علی زرداری نے سی ای سی کے بے حد اصرار کے باوجود نوجوان بلاول کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا اور خود پارٹی کے سارے معاملات چلانے کے لیے شریک چیئرمین کا عہدہ قبول کیا۔ مگر میڈیا میں آج بھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری نے خود ساختہ طور پر پی پی پی کی قیادت سنبھال لی، حالانکہ اس مسئلے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے دو دن تک طویل بحث و مباحثہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے چیئرمین اور آصف علی زرداری شریک چیئرمین ہوں گے۔

2009 ءمیں صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں11 اگست کو اقلیتوں کا دن منانے کا اعلان کیا ، جس کا مقصد قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 میں آئین ساز اسمبلی میں تقریر کو یاد اور اجاگر کرنا ہے، اقلیتوں کے حقوق ریاست کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہیں، پی پی پی رہنما اور اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرکے نہ صرف 1973 ءکے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا بلکہ جمہوریت کو مستحکم اور صوبوں کو بااختیار بنایا، آصف علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے رہنما ہیں جنہوں نے اتنی بڑی ترمیم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی بھی اپوزیشن میں سے اس کا مخالف نہ ہو، جس طرح 1973 ءکے آئین میں پوری پارلیمان، حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر تھیں، اسی طرح اٹھارویں ترمیم کے وقت پوری پارلیمان متحد تھی اور یہ کارنامہ پاکستان نے دوسری بار دیکھا جس کا سہرا آصف علی زرداری کے سر جاتا ہے۔