گمشدہ افراد کی بازیابی

January 15, 2022

انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا کہ قومی اسمبلی سے ’’ منظور شدہ‘‘لاپتہ افراد کے قانون کا مسودہ ہی ریکارڈ سے ہی غائب ہو گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس اہم مسئلے سے کس طرح نبرد آزما ہو رہی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں مسنگ پرسن کے لواحقین بھی شامل تھے جسکو آمنہ جنجوعہ لیڈ کر رہی تھیں اور جن کے ساتھ تحریک انصاف کی موجودہ وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری بھی متحرک تھیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مارچ2011ء میں ایک کمیشن بنایاتھا جس کے پہلے چیئر مین موجودہ چیئر مین نیب ہیں۔گو کہ اس کمیشن نے کچھ افراد کو بازیاب بھی کروایا لیکن آج بھی اس کمیشن کے سامنے دو ہزار سے زائد گمشدہ افراد کے کیس پڑے ہیں جنکا کوئی حل نہیں نکل سکا۔پاکستانی ریاست کی سرد مہری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب یہ معاملہ عالمی تنظیموں کے ایجنڈے میں شامل ہوااور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا ایک وفد اس معاملے کی تحقیق کرنے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں پاکستان آیا تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان سے ملنے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ صرف انسانی حقوق کے کارکنا ن اور لواحقین نے اس کمیشن کو تفصیلات مہیا کیں جس کے بعد یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہونے لگا۔اس کے ساتھ ساتھ یورپین پارلیمنٹ نے بھی مسنگ پرسن کی بازیابی کیلئے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اگر حکومت پاکستان گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی قانون نہیں بناتی تو پاکستان سے جی ایس پی کا اسٹیٹس واپس لے لیا جائے۔ یاد رہے کہ اسی اسٹیٹس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت ترقی کر رہی ہے۔یوں حکومت پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی مسنگ پرسن کو فوجداری جرم قرار دیا جائے گا۔قومی اسمبلی نے 8نومبر 2021کو کریمنل لا امینڈ منٹ 2021پاس کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ اورکوڈ آف کریمنل پروسیجرز میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک نئی شق 52Bمتعارف کروائی جس کے ذریعے گمشدہ افراد کی تعریف کرتے ہوئے اس کو فوجداری جرم قرار دیا۔اس بل کے مطابق وہ لوگ گمشدہ افراد کے ضمن میں آئیں گے جنہیں کوئی اہلکار یا گروپ بغیر کسی قانونی حیثیت کے اغوا کرے تاکہ انکی قانون کے مطابق بازیابی نہ کرائی جا سکے۔ابھی تو یہ بل سینٹ میں ہی پیش نہیں ہوا تھا کہ غائب کر دیا گیالیکن اس سے پہلے اس بل میں ایسی ترمیم کی گئی جس سے سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جدوجہد کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس بل میں چپکے سے ایک تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر کسی نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئی جعلی درخواست دی ،تواسے بھی فوجداری جرم قرار دیا جائے گا جس پر پانچ سال سزا اور پانچ لاکھ جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ اس ترمیم سے اس بل کی روح کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ جو لوگ ان افراد کو گمشدہ کر رہے ہیں وہ اتنے منظم اور طاقت ور ہوتے ہیں کہ اپنے اس جرم کی کوئی نشانی نہیں چھوڑتے جس کو بعد میں عدالت میں ثبوت کے طورپر پیش کیا جا سکے۔واضح رہے کہ اگر انکے خلاف ثبوت پہلے سے موجود ہوتے تو اس بل کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔اس ترمیم کے ذریعے دراصل تحریک انصاف نے انٹرنیشنل اور اندرونی دبائو پربل بھی پاس کر دیا اورمہربانوں کو بھی خوش کر دیالیکن گمشدہ افراد کی آہ و بقا کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ مدثر نارو کا کیس اس سلسلے میں ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

گمشدہ افراد کی بازگشت کافی عرصہ تک بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے اضلاع سے آنی شروع ہوئی جب ریاست نے دہشت گردی کے خلاف منظم کارروائیاں شروع کیں۔ بلوچستان میں دراصل ساحل و وسائل کے ساتھ ساتھ معاشی حقوق کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن آخری فوج کشی میں پرویز مشرف نے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو گمشدہ کروایا ۔اس دور میں کچھ نوجوانوں نے مزاحمتی جدوجہد کا علم بلند کیا اور بعض تو پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔ پچھلے دنوں ڈی چوک پر بلوچستان سے بڑی تعداد میں گمشدہ افراد کی خواتین لواحقین نے مظاہرہ کیااور جب ان عورتوں نے آہ بقا کی تو وہاں موجود تمام افراد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ کئی عورتوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بیس بیس سال سے لاپتہ ہیں اور انہیں نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہیں۔ قائد اعظم نے تو کہا تھا کہ’’ ریاست کا سب سے پہلا کام لوگوں کی حفاظت کر نا ہے‘‘پھر یہ کیا ہے؟