زندگی کی آرزو میں زندگی کھوتے ہوئے

January 17, 2022

میں اس وقت دور دیش ہوں باہر برف ہی برف ہے۔ شکر ہے اندر گرم ہے اس وبا سے پاکستان میں تو جان بچی رہی اور میں خوش تھا پھر دور دیش آنے کے بعد احتیاط کے مطابق وبا سے مزید محفوظ رہنے کے لئے دوبارہ ویکسین لگانے کا سوچا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے سے وقت لے کر ویکسین لگوائی جا سکتی ہے آج کل یہاں دوبارہ وبا اپنا زور دکھا رہی ہے ۔

اس وقت کینیڈا میں ایک دفعہ پھر لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے پابندیاں دوبارہ سے لگنا شروع ہو چکی ہیںا سکولوں کو دوبارہ بند کر دیا گیا ہے ۔ چائے خانے وغیرہ بھی پابند ہیں یہاں پر ہر شخص ماسک میں نظر آتا ہے اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ماسک کی پابندی تو دوسروں کی وجہ سے ضرور کرتے ہیں مگر ویکسین بالکل نہیں لگواتے وہ بھی ہمارے لوگوں کی طرح اس وبا پر یقین نہیں رکھتے ۔کینیڈا کی فضائی کمپنی جو پہلے تو ایک زمانے میں ملکہ برطانیہ کی کاروباری کمپنی تھی مگر کچھ عرصہ سے اب ایک پبلک کمپنی ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں اپنے حصص رکھتی ہے اس کا نیٹ ورک اس کے ملک کینیڈا کی طرح بہت وسیع ہے مگر منافع بالکل نظر نہیں آتا ۔اس ملک کی سیاست بھی عجیب بھی ہے اور غریب بھی، اس ملک کا میڈیا سیاست کے تناظر میں بہت ہی بے بس نظر آتا ہے ایک تو آپ کسی پر الزام نہیں لگا سکتے ۔پھر عدالتیں اپنے فیصلے منوانے کی اہمیت بھی رکھتی ہیں چند دن پہلے کی بات ہے ایک جگہ چند پاکستانی تارکین وطن کی کوئی مقامی تقریب تھی وہاں سب لوگ پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کردار پر بڑی بے رحمی سے تنقید اور تبصرہ کر رہے تھے ان کی کچھ باتوں میں صداقت بھی تھی جس سے ملک سے محبت کا اندازہ بھی ہوتا تھا ۔ووٹ کے معاملے پر جس طریقہ سے اپوزیشن کے لیڈروں نے بات کی تھی تارکین وطن اس سے خوش نظر نہیں آتے سب سے زیادہ تنقید احسن اقبال پر ہو ئی۔ احسن اقبال نے جس طریقہ سے تارکین وطن کی بات کی تھی وہ ہی دل آزاری کا باعث تھی۔

میں کتابوں اور کتب خانوں کے حوالہ سے کچھ کام بھی کر رہا ہوں۔ اس سلسلہ میں چند دن پہلے اتفاق سے ایک ایسے امریکی سے ملاقات ہوئی جو امریکہ میں قبل از وقت نوکری سے فارغ ہونے کے بعد اب کینیڈا کے کتب خانوں کے حوالے سے کام کر رہا تھا ۔ اس کو جب میری تحقیق اور تجربہ کا معلوم ہوا تو اس نے پاکستان میں شائع ہونے والی کچھ کتب کا ذکر کیا۔میں نے اس کو بتلایا کہ ہمارے ہاں کتب کی اہمیت تو ہے مگر ان پر توجہ، سرکار اور عوام کی کم ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے سرکار کی نوکری کیوں چھوڑ دی؟ اس نے پہلے تو میرے سوال کو نظر انداز کیا اور میرے دوبارہ پوچھنے پر کہنے لگا کہ اس میں تمہاری کیا دلچسپی ہے ۔میں نے صاف کہا کہ امریکہ ہمارے ہر معاملے پر خبر رکھتا ہے اور ہماری نگرانی بھی کرتا ہے ۔اس نے میری بات سن کرکہا یہ کونسی نئی بات ہے یہ تو ہمارا حق ہے اور دوسرے تم اور تمہارے ادارے ہم پر اعتبار بھی تو کرتے ہیں۔ رہایہ سوال کے مجھے اپنی نوکری کیوں چھوڑنی پڑی؟ میں نے سابقہ امریکی انتخابات میں مسٹر ٹرمپ کے لئے کافی کام کیا کم از کم مجھے یقین تھا کہ ٹرمپ جیتیں گے مگر امریکی فوج کی خاموش مداخلت نے معاملات کو کافی خراب کیا ۔ ٹرمپ جنگ کے لئے تیار تھے مگر عقلمندی کاتقاضا تھا کہ جنگ نہ کی جائے وہ سیاست میں امریکی فوج کا کردار کم کرتے جا رہے تھے۔ انہوں نے امریکہ سے باہر امریکی فوج کو محدود کرنا شروع کیا اور یہ ہی بات امریکی فوج کو پسند نہیں آئی اور مجھے بھی کچھ اسی وجہ سے ملازمت ختم کرنا پڑی، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، کچھ ایسے معاملات اب بھارت اور تمہارے ہاں بھی ہیں مگر تم لوگ قابل گرفت ہو اس لئے کہ تمہارا دوست چین بھارت کی تجارت کے لئے خطرناک ہے اور تم اس کے مدد گار اور حلیف ہو ۔ بس ایک اور جنگ کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ۔

میں اس کی یہ بات سن کر کچھ ڈر سا گیا وہ بھی عجیب سر پھرا تھا اور اس نےکہا کیا جنگ سے ڈرتے ہو۔میں نے جواب دیا ہاں بہت ڈرتا ہوں یہ ترقی اور خوشحالی کےلئے زبردست خطرہ ہے پھر ہم کو تو کئی ملکوں سے لڑنا ہوگا بھارت کےساتھ امریکہ کے ساتھ اور حلیفوں کےساتھ! کیا اس جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے میں نےسوال داغ دیا۔ وہ کچھ دیر کے لئے خاموش سا ہوگیا ،اس طرح تم ہی سوچتے ہو یا اور لوگ بھی ایسا سوچتے ہیں ؟میں خاموش رہا۔ ہاں اس جنگ کو غیر جانبداری سے ٹالا جا سکتا ہے جو بہت ہی مشکل کام ہے۔ میرا خیال ہے تمہارے ہاں جس طریقہ سے جمہوریت رائج ہے وہ قابل اعتبار نہیں ،کسی نئے اور قابل اعتبار نظام کی ضرورت ہے جمہوریت نے ہمیشہ کمزور ملکوں کو مزید کمزور اور بے بس کیا ہے، دوسری طرف بھارت کی جمہوریت بھی ناقابل فہم ہے ۔مگر وہاں کے عوام ترقی چاہتے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں اور وہاں کی جمہوریت جلد ہی اپنا وطیرہ بدل سکتی ہے اور یہ بھارت کے لئے ضروری ہے تمہارا خطہ اہم ہےمگرتم لوگ معاملہ فہمی نہیں کرتے ۔

میں اس امریکی کی باتوں سے ڈر سا گیا تھا اور اس نے بھی بھانپ لیا اور بولا۔ مسٹر خان تم ایک آزاد ملک میں ہو، پریشانی کی ضرورت نہیں ۔اگر تمہاری نیت ٹھیک ہے تو کوئی خطرہ نہیں مجھے دیکھو مجھے معلوم ہے کہ میں دربدر ہوں مگر اس یقین کے ساتھ کہ اگلے الیکشن میں مسٹر ٹرمپ حصہ بھی لیں گے اور جیتیں گے بھی، امریکہ کو ٹرمپ کی ضرورت ہے مجھے حوصلہ ہوا اور کچھ خوشی بھی ۔پاکستان میں عوام کی تربیت نہیں کی گئی ۔ عوام کی تربیت کوئی نیا نظام ہی کر سکتا ہے تم کو اپنے نوجوانوں پر توجہ دینی ہوگی۔