عدت کے اندر نکاح کے بارے میں عدالتِ عالیہ کا فیصلہ اور اس کے بارے میں تحفظات

January 21, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

علامہ ابن عابدین شامی متوفّٰی1252ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور رہا غیر کی منکوحہ اور غیر کی معتدہ سے نکاح اس میں حقوق زوجیت کی ادئیگی عدت کو واجب نہیں کرے گی، بشرطیکہ اسے علم ہو کہ یہ غیر کی منکوحہ یا معتدہ ہے ،کیونکہ کسی بھی فقیہ نے اس نکاح کے جواز کا قول نہیں کیا ،پس یہ عقد نکاح اصلا ًمنعقد ہی نہیں ہوگا ،سواس بنیاد پر عدت میں نکاح کے فساد یا بطلان میں فرق کیا جائے گا،اسی وجہ سے حرمت کے جانتے ہوئے مباشرت کرنے سے حد واجب ہوگی ،کیونکہ یہ زنا ہے جس طرح ’’القنیہ ‘‘ وغیرہا میں ہے‘‘ ۔(رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَارِ:ج:3،ص:132)

ڈاکٹر وھبہ الزحیلی متوفّٰی1437ھ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’عدت گزارنے والی عورت اورجو کسی غیر سے وطی بالشبہ کے نتیجے میں رحم کی صفائی کا وقت گزار رہی ہو، پس اگر کوئی اُس سے مباشرت کرے گا تو اس پر زنا کی حد جاری کی جائے گی، سوائے اس کے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ اُسے عدت کے اندر یا غیر سے استبرائِ رحم کے دوران حرمتِ نکاح کا علم نہیں تھا، تو اس پر حد نافذ نہیں ہوگی اور دین سے کوئی ناواقف شخص جو نیا نیا اسلام میں داخل ہوا ہے اور اس نے ایسے حالات میں نشوونما پائی ہے کہ علماء سے دور رہا ہے ، اُسے (وطی بالشبہ کی صورت میں)معذور سمجھا جائے گا(اور اس پر حد جاری نہیں ہوگی) (الفقہ الاسلامی وادلتہ :ج:9،ص:6613)

اگر کوئی شخص معتدہ سے نکاح کا علم ہونے کے باوجود اس فعل حرام کا ارتکاب کرتا ہے تو اسلامی حکومت اس کو تعزیرا ًسزا دے سکتی ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر ہے ،علامہ ابوعبداللہ قرطبی مالکی متوفّٰی668ھ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں :طُلَیْحَۂ اَسَدِیَّۃَ،رشیدِ ثقفی کے نکاح میں تھی تواس نے اُسے طلاق دے دی اوراس نے اس کی عدت میں( کسی غیر شخص سے) نکاح کرلیا تو حضرت عمر بن خطابؓ نے اسے اور اس کے شوہر کو لکڑی کے کئی کوڑے مارے اور ان دونوں کے درمیان تفریق کردی‘‘۔ (تفسیر قرطبی:ج: 3،ص196)

علامہ قرطبیؒ مزید لکھتے ہیں :ترجمہ:’’اورعبدالملک بن مروان نے ایسی صورت میں دونوں کو چالیس کوڑے لگائے، راوی بیان کرتے ہیں: اس کی بابت قَبِیصہ بن ذُوَیب سے پوچھا گیاتو انھوں نے کہا: بہتر ہوتا کہ تم تعزیر میں تخفیف کرتے اور بیس کوڑے لگاتے اور ابن حَبیب نے اس عورت کی بابت جس نے عدت میں نکاح کیا اور شوہر نے اُسے چھولیا یا بوسا لیا یا مباشرت کرلی یا چھیڑ چھاڑ کی یا اُسے شہوت کی نظر سے دیکھا تو زوجین اور ولی اور گواہوں اور جسے معلوم ہے کہ وہ عدت میں ہے(اور اس کے باوجود شریکِ مجلس ہے)، تعزیراً سب کوسزا دی جائے گی اور جسے اس نکاح کی حرمت کا علم نہیں ہے تو اس پر کوئی سزا نہیں ہے، (تفسیر قرطبی ، ج:3،ص:196) ‘‘۔

غرض یہ نکاح فاسد ہے اورقاضی پرزوجین کے درمیان تفریق لازم ہے اور جب مُعتدّہ عورت کی عدت پوری ہوجائے تو احناف ،شوافع اور حنابلہ کے نزدیک وہ شخص اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے اور امام مالک کہتے ہیں : یہ ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئے،علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’اور چاروں مذاہب کے فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ،جو کسی اور کی عدت میں تھی ،تو یہ نکاح فاسد ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کااس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں پر حد نہیں ہے، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نکاح فاسد میں حد واجب نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ اسے عدت کے دوران نکاح کی حرمت کا علم نہ ہوتوحد کے واجب نہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور حرام ہونے کا علم ہونے کی صورت میں اُن پر (حد کے واجب ہونے یا نہ ہونے میں )علماء کا اختلاف ہے ، (تفسیر القرطبی:ج: 3،ص196)‘‘۔

ڈاکٹروھبہ الزحیلی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’اور اس مسئلے پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے کہ عدت کے اندر (مُعتدَّہ سے )نکاح جائز نہیں ہے، خواہ وہ عدتِ حیض ہویا عدتِ حمل ہو یا تین مہینوں پر مشتمل عدت ہو اور وہ نکاح کے نتیجے میں ہو یا شبہِ نکاح کے نتیجے میں ہو اور اس امر میں اختلاف ہے :’’ایک شخص نے ایک عورت سے اُس کی عدت میں نکاح کیا اوراُس سے مباشرت بھی کرلی ‘‘تو امام مالکؒ ،امام اوزاعیؒ اور امام لیثؒ نے کہا: ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور اب وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ، امام شافعیؒ ،امام ثوریؒ اور امام احمدؒ نے کہا: ان دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور جب عدت گزر جائے تو اس شخص کے اُسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،(الفقہ الاسلامی وادلتہ:ج:9 ،ص: 6676)‘‘۔

غرض عدت کے دوران معتدّہ عورت سے نکاح کی حرمت پر تمام ائمۂ کرام کا اجماع ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے ،اگرعدت کے دوران نکاح کے حرام ہونے کا علم ہونے کے باوجود جان بوجھ کر اس فعل حرام کا ارتکاب کیا ہے تو بدکاری کا ارتکاب کیا ہے اور اگر علم نہ ہونے کی صورت میں ارتکاب کیا ہے تو گناہ کبیرہ ہے ،لیکن اس پر حد واجب نہیں ہوتی اور نہ اس پر زنا کے احکام لاگو ہوتے ہیں ، یہ نکاح فاسد ہے اور اس کے فساد کا سبب عدت کے اندر نکاح ہے ، البتہ جب عدت پوری ہوجائے تو فساد کا سبب زائل ہوجائے گا اور دونوں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں،لیکن ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے کوئی اسلامی احکام سے لاعلمی کا اظہار کرے تو قاضی کو ان کی سرزنش کے لیے کوئی سزا ضرور دینا چاہیے، تاکہ اسے دیکھ کر دوسرے عبرت پکڑیں۔ (…جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk