ابتر کراچی: جماعت اسلامی ان ایکشن

January 22, 2022

پاکستان بھر کے ارباب اقتدار و اختیار، سیاسی جماعتوں کے قائدین، جمہوریت کے علمبرداروں اور مین اسٹریم و سوشل میڈیا کی توجہ شدت سے مطلوب ہے کہ وہ شہر عظیم کراچی کی مسلسل اور بڑھتی ابتر صورتحال پر فوری توجہ دیں۔ ہمارے اقتصادی صدر مقام کی حیثیت سے اس شہر پریشاں کی موجودہ گھمبیر اور ناگفتہ بہ حالت اب فقط ایک مخصوص علاقے یا بڑے شہر کے مسائل کے حوالے سے مخصوص علاقے کی ’’آئینی انتظامی حدود‘‘ کا مسئلہ نہیں، بلکہ عشروں کی یہ اذیت ناک سچی کہانی قومی معیشت، انتہائی بنیادی عوامی ضروریات، ملکی صنعتی عمل، داخلی سلامتی و استحکام، باہمی صوبائی رابطوں، قومی یکجہتی کے لازموں اور کتنے ہی حوالوں سے مکمل قومی مسئلہ بن گئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے ان کے مسلسل غصب ہوتے حقوق اور ان میں شدت آنے کے بعد صوبے کی حکمران جماعت پی پی گنجلک کراچی کے مسائل بتدریج حل کرنے کی بجائے ناجائز سیاسی مفادات کے لیے صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کی آمریت کے زور پر انہیں برقرار رکھنے اور مزید بھڑکانے کا رویہ مدت سے اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس پر کراچی بھڑک کر سراپا احتجاج بن گیا ہے، ہوا تو بہت کچھ غلط ہے اور یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے لیکن اب تشویش کا گراف الارمنگ سطح پر آ گیا ہے۔

کراچی کی مسلسل ہوتی مضطرب کیفیت کو شہر کی سابق پارلیمانی قوت جماعت اسلامی نے بہت منظم اور موثر انداز ایڈریس کرکے، اسے فقط شہر کے سنگین مسئلے سے ملکی توجہ طلب مسئلے کے طور اجاگر کرنے میں بالآخر کامیاب حیثیت حاصل کر لی ہے اگرچہ کراچی میں اب جماعت اسلامی کی قومی اسمبلی میں کوئی سیٹ نہیں لیکن سر دست کراچی میںاس کا سیاسی وجود ایک لحاظ سے وہاں کی بڑی پارلیمانی جماعتوں سے بھی زیادہ اہم ہے، حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں کراچی کا احتجاج باوقار نتیجہ خیز اور تیز تر فالواپ کا حامل ہے۔ سندھ حکومت کے انتہائی متنازعہ لوکل باڈیز (ترمیمی ) ایکٹ کو شہر میں موجود باقی تمام بڑی چھوٹی پارلیمانی جماعتوں کی طرف سے ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا گیا ہے اکثریتی زور پر اسے منظور کرانے پر اپوزیشن نے ایوان میں سخت مزاحمت اور احتجاج کیا، پھر بائیکاٹ۔ جماعت کا اصل اور نتیجہ خیز اقدام یہ ہے کہ اس نے اپنے کارکنوں کےساتھ دوسری ان خاموش پارلیمانی جماعتوں کو بھی متنازعہ بل کے خلاف قدرے سرگرم کر دیا جنہوں نے بل کی روایتی سی مخالفت کے لیے سیاسی ابلاغ کا ہی سہارا لیا اور اس سے آگے نہ جاسکیں۔ تاہم اب وہ سرگرم اور کچھ متحد بھی ہوتی نظر آ رہی ہیں جبکہ جماعت کا دھرنا اور ریلیاں تیسرے ہفتے میں داخل ہو رہی ہیں، اس پر قومی سطح کی پارلیمانی جماعت بن جانے والی تحریک انصاف کو بھی ہوش آ یا ہے اور اس نے یہ ا علان کیا ہے کہ وہ ’’اکثریتی آمریت‘‘ کے زور پر منظور کئے گئے بلدیاتی اداروں کے رہے سہے اختیارات کو بھی غصب کرنے والے کالے قانون کے خلاف صوبے کے عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اندرون سندھ کا رخ کرے گی کہ صحت و تعلیم اور گلی محلے کی روز مرہ سہولتوں کی بدترین محرومیوں کے حوالے سے سندھ کے دیہی عوام پہلے ہی بہت مظلوم ہیں اور تو اور جمعیت علمائے اسلام، جو دیہی سندھ میں خاصا اثر رکھتی ہے، بھی اس بل کی مخالفت میں اپنا موقف واضح کر چکی اور دبے دبے الفاظ میں ن لیگ کراچی بھی۔ ایسے میں جمہوریت کو حقیقی معنوں میں حسین بنانے کا موقع ہے، ہے تو محال ہے لیکن FOCUS DEMANDS SACRIFICE (انہماک قربانی مانگتا ہے ) کا نتیجہ خیز اصول اختیار کرکے تحریک انصاف سندھ کی حد تک جمعیت علمائے اسلام سے اپنی مکمل کُٹی ختم کر دے مولانا صاحب کی امامت قبول کر لے اور سندھ کے گرینڈ الائنس کو بھی ملا کر ابتر دیہی سندھ کی حالت بدلنے کا سیاسی مشن شروع کر دے تو یقیناً سیاسی افراتفری کم ہو گی قومی و صوبائی یکجہتی میں اضافہ ہو گا، قابل احتساب پی پی کا قابل قبول جمہوری احتساب ہو سکے گا۔ ایسے میں ن لیگ بھی اسی کشتی میں ہوگی جو مولانا صاحب کی امامت کو عرصے سے قبول کئے ہوئے ہے۔ ہے تو یہ سب آئیڈیل حل، لیکن اتنا بھی آئیڈیل نہیں۔ آخر تو خود مختار بلدیاتی نظام بنیادی آئینی تقاضہ ہے اور تمام جماعتیں مکمل آئینی نفاذ کی عملبردار۔ سو، ایسا ہونا اسٹیٹس کو میں ہی آئیڈیل لگتا ہے وگرنہ تو یہ عوام دوست جمہوری سیاسی عمل اور کراچی اور دیہی سندھ کو ابتری سے نکالنے کا بنیادی تقاضہ بھی ہے اور جمہوری اور آئینی بھی۔

پی پی کے لیے بھی ناچیز کی ملین ڈالر ٹپ ہے کہ وہ اپنے اصل مقام ’’چاروں صوبوں کی زنجیر ‘‘ کی طرف لوٹے۔پنجاب میں دو بارہ قدم بڑھا تو رہی ہے، جی آیاں نوں، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد دونوں صوبے پی پی کو یہاں کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دوبارہ سے اپنا کھویا قومی تشخص بحال کرانے کا خاصا ساماں لیے ہوئے ہیں۔ سندھ کارڈ گزرے عشروں کی بات ہو گئی، اب چلتا نظر نہیں آتا، ہمت کریں پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں میں خود کو پھر سے قومی بنانے کا خاصا سیاسی ساماں موجود ہے۔ خان اعظم کو بھی مخلصانہ مشورہ، مان جائیں کہ دکھائے گئے خوابوں اور قابل قدر سیاسی ارادوں کے مطابق عوام کی قسمت بدلنے اور بمطابق تبدیلی کرنے کی صورتحال آپ کے حق میں ہے نہ آپ اور جماعت کی کیپسٹی، سو اسٹیٹس کو پاش پاش کرنے کے جنون سے نکل کر اسی کو نکھارتے سنوارتے، جہاں موقع ملے توڑتے پھوڑتے اپنے اور جماعتی رویے میں قابل قبول اور نتیجہ خیز تبدیلیوں کی طرف آئیں۔سیاسی جماعتوں سے مکمل کٹیاں ختم کریں بنیادی موقف پر قائم اورہرآنے والے دن کو گزر جانے والے دن سے بہتر بنانے کو ہی اپنی آئندہ سیاسی حکمت عملی بنائے، ’’دلی پہنچ ہی جائیںگے‘‘ ہنوز دلی دوراست۔