بینک بند نہیں کرسکتے، لین دین کا اسلامی سسٹم قانون سازی سے رائج ہوگا، چیف جسٹس شریعت عدالت

January 22, 2022

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس محمد نورمسکانزئی نے سودی نظام معیشت کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ بینک بند نہیں کرسکتے، لین دین کا اسلامی سسٹم قانون سازی سے رائج ہوگا.

حکومت اور بینک بلا سود لین دین پر اتفاق رائے پیدا کریں،عدالت نے سود کے خلاف حکم امتناع جاری نہیں کیا ،اس وقت ملک میں سودی بنکاری نظام رائج ہے اور اس کے لیے قوانین موجود ہیں،گر کسی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو داد رسی کے لئے فورم موجود ہے، ہم بینک بند نہیں کرسکتے ہیں،جب تک قانون سازی نہیں ہوگی تب تک کوئی نظام نہیں چل سکتا ہے .

جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے کہا کہ رباء فوری طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ،یہ ایک ارتقائی عمل ہے،جب تک ارتقاء مکمل نہیں ہوتا ،سود مالیاتی نظام کے ساتھ چلتا رہے گا،سٹیٹ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سٹیٹ بینک بلا سود لین دین کا نظام قائم کرنے میں سنجیدہ ہے،لیکن اسلامی بینکنگ سسٹم راتوں رات قائم نہیں ہوسکتاہے ،یہ ایک ارتقائی عمل ہے.

چیف جسٹس محمد نورمسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی شریعت بینچ نے اٹارنی جنرل کی طرف سے التوا کی درخواست پر مزید سماعت یکم فروری تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اپنے دلائل مکمل کرلیں۔

دوران سماعت تنظیم اسلامی کے نمائندے کی جانب سے ملک میں رائج دو متوازی بینکنگ سسٹم پر اعتراضات کے جواب میں چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریما رکس دیے کہ ہم بینک بند نہیں کرسکتے،بینکوں میں لین دین کا اسلامی سسٹم قانون سازی سے رائج ہوگا ۔

جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے کہا کہ اسلامی بینکاری نظام راتوں رات قائم نہیں ہوگا بلکہ ارتقائی عمل کے ذریعے ہوگا ،حکومت کے مطابق اس پر کام جاری ہے جبکہ آسٹریلیا جیسے غیر اسلامی ممالک نے بھی سود کے بغیر بینکنگ سسٹم قائم کردیا ہے.

دوران سماعت سٹیٹ بینک کی جانب سے اسلامی بنکاری نظام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی مفصل رپورٹ پانچ جلدوں میں پیش کی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک اور یونائیٹیڈ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ اٹارنی جنرل کے بعد حتمی دلائل دیں گے،تاہم انہوںنے ابتدائی دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اسلامی بینکنگ سسٹم کے لیے پاکستان نے جو کام کیا ہے پوری اسلامی دنیا اس کی معترف ہے ،حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اقدمات کے باجود اسلامی بینکاری نظام کا قیام آسان کام نہیں ،اس سلسلے میں دشواریاں درپیش ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا حکومت اور مالیاتی ادارے اتفاق رائے پیدا کریں تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کے قابل سماعت ہونے کا سوال اٹھا کر حکومت اور ادارے رکاوٹیں پیدا نہ کریں.

جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے سٹیٹ بینک کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق جب حکومت خود اسلامی بنکاری نظام کی جانب جارہی ہے تو پھر رکاوٹیں کیوں؟ جب حکومت سود کے خاتمے کے لیے دیانت داری سے کام کررہی ہے تو پھر رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیئیں.

نیشنل بینک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الائیڈ پیپر ملز عدالتی فیصلے کے آڑ میں قرض واپس نہیں کررہی ہے ، لین دین ایفائے عہد پر ہوتا، تنظیم اسلامی کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت دو متوازی بینکنگ سسٹم چل رہے ہیں،متوازی نظام کی موجودگی میں اسلامی بینکنگ سسٹم ترقی نہیں کر سکتا ہے ،بعد ازاں عدلت نے مزید سماعت یکم فروری تک ملتوی کردی