کارل مارکس سے شوکت عزیز تک

January 25, 2022

سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گوربا چوف نے کہا ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد واشنگٹن مغرور اور پُراعتماد ہوگیا، جو اسے نیٹو کے فوجی اتحاد بڑھانے کی طرف لے گیا۔ اس طرح کے بیانات موجودہ روسی صدر بھی گاہے گاہے دیتے رہے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے جہاں سوویت یونین نے امریکا کو فوجی لحاظ سے من مانی کرنے سے روکا وہاں اُس نے ’’دنیا کے مزدورو ایک ہو جائو‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینے کیلئے جدوجہد کا جو برق رفتار سلسلہ شروع کیا، اُس سے امریکا کا سامراجی نظام بھی لرز کر رہ گیا تھا۔ یہ کارل مارکس ہی تھے جن کے وژن و نظریے نے غریب کو سرمایہ داروں کیخلاف نہ صرف راہ عمل دکھائی بلکہ ایک ایسا عالمگیر نظامِ معیشت دیا کہ جسے کامریڈ لینن نے بروئے کار لاکر عملی اعتبار سے محنت کشوں کو زرداروں کے ہم پلہ بناکر دکھایا۔ یہ کارل مارکس کی ’’داس کیپٹل‘‘ ہی تھی جس نے محنت کش کے پسینے کو توقیر بخشی۔ گزشتہ ایک ماہ سے ’’داس کیپٹل‘‘ کا اردو ترجمہ زیر مطالعہ ہے۔ اس ترجمے سے متعلق ہم جیسے کوتاہ قد و کج فہم کچھ کہنے کی سکت ہی نہیںرکھتے، درحقیقت یہ کام ہماری علمی سطح سے کہیں بڑا اور ارفع ہے (من آنم کہ من دانم) اس خاطر یہاں ہم حضرت جمیل الدین عالی کا ایک حوالہ رقم کرکے بات کو آگے بڑھاتے ہیں، داس کیپٹل (دی کیپٹل۔ سرمایہ) کارل مارکس کی ایسی تالیف، تصنیف ہے جس نے بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق معاشیات اور اقتصادیات کے فرسودہ نظام کو پارہ پارہ کردیا اور اقتصادیات کے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی جس پر کسی کی نظر نہیں پڑی تھی، محنت کش طبقے میں وہ عظمت و قوت پیدا کردی جس کے سامنے بڑی بڑی قوتیں جھک گئیں۔ اول اول خود بابائے اردو نے اس کا ترجمہ کرنا چاہا تھا اور کئی بار دوسرے فضلاکو بھی آزمایا مگر ”کسی کی ہمت نہ ہوئی“ پھر ہمارے نہایت معروف فاضل فلسفی اور صحافی سید محمد تقی صاحب مرحوم (مدت تک مدیر جنگ ) کراچی نے مولوی صاحب سے اسے ترجمہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بقول مولوی صاحب ’’سید صاحب نے بڑی عرق ریزی سے اس کا ترجمہ کیا ہے‘‘ اور ’’زیر نظر کیپٹل کا اردو ترجمہ ہماری بہت سی اصل تصانیف پر بھاری ہے‘‘ مترجم کا کہنا ہے کہ مارکس نے کیپٹل کے نام سے ایک علمی اور سائنسی کتاب لکھی ہے، افلاطون کے علاوہ فکرین عالم میں کوئی مصنف ایسانہیںگزرا، جس نے خالص علمی وسائنسی مباحث کو اعلیٰ ادب کی زبان میں بیان کیا ہو لیکن مارکس سائنس کی خشک بحثوں کو ادب میں بیان کرنے کے اصول پر چلتے ہیں، اس لیے اُن کی کتاب کا ترجمہ کچھ اور زیادہ مشکل ہو گیا۔ تاہم آگے چل کرحضرت تقی صاحب راقم جیسے آسان پسندوں کے حوصلے کیلئے لکھتے ہیں، ’’اس ترجمے کی اشاعت پر مترجم کویہ ذہنی سکون حاصل ہے کہ ’’کیپٹل ‘‘اپنی پوری تاریخ میں پہلی باراس انداز میں اردومیں آئی ہے کہ مارکس کےحقیقی مفہوم کو سمجھنے میں اب کوئی دشواری باقی نہیںرہی‘‘۔ اس کتاب کا ذکر جیسا کہ عرض کیا ہے کہ گوربا چوف کے بیان کے تناظر میں آیا۔ کہنا یہ ہے کہ ایک طرف مارکس کے نظریے جسے ملحدانہ کہہ کر ہم ایک عمر تک صف اول کے دشمن رہے، اس نظریے کے بل بوتے پر استوار سوویت یونین کو نہ صرف گورباچوف وپیوٹن یادکرتے ہیں بلکہ ہم جو اس کے 17بخرے کرنے کے وصف و شرف کے دعویدار ہیں اسے یاد کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ہاں آہیںبھر کر کفِ افسوس مل کر کہا جاتا ہے کہ اگر سوویت یونین ہوتا تو امریکا یوں بےلگام نہ ہوتا۔ کہنا یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی نظریے پر ایک ایسی عالمگیر تحریک کی اُٹھان ہوئی جس نے عالمی سامراج سمیت اُن تمام بورژوائی طاقتوں کو بےخواب کردیا جو محنت کشوں کے رگ و پے سے خون چوس کر مال و زر کشید کر رہے تھے۔ مزید براں آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام کے الہامی نظریے پر دنیا کے پہلے نظریاتی ملک کے قیام کے دعویدار پاکستان کے غلام محمد سے لیکر اپنے موجودہ وزیر خزانہ شوکت عزیز تک جو جو نسخہ کیمیا سامنے لائے اُس سے اس اسلامی ملک کے 98فیصد عوام 2فیصد اشرافیہ کے مزید دست نگر بنتے چلے گئے۔ ایک ملحد کے سوویت یونین میں زار شاہی کیوں بےاختیار ہوئی اور اسلام کے قلعے میں زردار کیوں مامون ہیں۔ کیا یہ تمسخر عظیم نہیں کہ پیارے پاکستان میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے معیشت دان بنگلہ دیش جاکراُنکے تجربات سے سیکھ لیں کہ اُنہوں نے اتنی قلیل مدت میں اتنی حیران کن ترقی کیسی کرلی، گویا ہمارے ہاں دنیا کے دیگر معیشت دانوں کی طرح تو چھوڑیے اُن کی طرح بھی کوئی معیشت دان نہیں جنہیں ہم حقیر جان کر دھتکار چکے ہیں۔ سچ ازبس یہی ہے کہ اشتراکی نظام کو اپنے سے دور رکھنے کیلئے عالمی سامراج اور اُسکے ہمنوا ممالک نے پاکستان کو اپنا دست نگر بنایا اور حسبِضرورت استعمال کیا۔ اسی سبب آئی ایم ایف کے پاکستانی ایجنٹوں نے روز اول سے جمود کو برقرار رکھا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہی عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں کہ پاکستان میں غربت 78.4فیصد ہے اور 40فیصد گھرانے شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہم یہاں کمیونزم کا قصیدہ نہیںلکھ رہے، صرف عرض یہ کررہے ہیں کہ جوآج چین کی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ سالگرہ پر مبارک پر فخر کرتے ہیں ایسے رہنمایان ملت کل ’’کس‘‘ کیلئے اس سے بھی زیادہ عوامی کمیونزم کیخلاف برسرپیکار تھے، نیز سوویت یونین کے 17ٹکڑے بزعم خود کرنے کے دعویداروں سے استفسار ہے کہ ان کے ’’جہاد‘‘ سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا اور امریکا کو کتنا؟