بینکوں کو حکومتی قرضوں پر نادہندگی کی وارننگ

January 26, 2022

پارلیمنٹ سے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل کی منظوری کے بعد گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک نے ایک حیران کن پیشرفت میں کمرشل بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں پر نادہندہ یعنی ڈیفالٹ ہونے کے امکانات کو مدنظر رکھیں۔ اسٹیٹ بینک کےان احکامات سے اس تاثر کا خاتمہ ہوگیا ہےکہ حکومتِ پاکستان، ملکی قرضوں پر ڈیفالٹ نہیں کرسکتی۔ مرکزی بینک نے بین الاقوامی مالیاتی رپورٹنگ اسٹینڈرڈز (IFRS-9) کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اور وفاقی حکومت کی طرف سے ضمانت یافتہ قرضوں پر متوقع کریڈٹ خسارے سے استثنیٰ واپس لے لیا۔ اس طرح ایک طرف جہاں وفاقی اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکتی، وہیں کمرشل بینکوں کو بھی سرکاری قر ضوں کے ضمن میں ممکنہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے خبردار کردیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں پر متوقع کریڈٹ خسارے پر وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانے والی ضمانتوں یا خود اس کی طرف سے لیے گئے قرضوں پر استثنیٰ بھی ختم کردیا ہے۔ اس فیصلے کا نفاذ اسٹیٹ بینک کو دی جانے والی مکمل خود مختاری کے موافق ہوگا۔ان ہدایات کے بعد کمرشل بینکوں کیلئے حکومت کو غیر محدود قرضے دینے کی صلاحیت بھی محدود کردی گئی ہے۔ اب نئی ریگولیشن پالیسی جاری ہونے کے بعد بینکوں کو اپنے سرمائے کی ضروریات اور حکومت کو دیئے گئے قرضوں کے تناسب کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا جبکہ نجی بینکوں کو اب ٹریژری بلوں اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر بھی متوقع کریڈٹ خسارے کا جائزہ لینا پڑے گا۔ اس ریگولیشن کا مطلب یہ ہے کہ کمرشل بینک حکومت کو مخصوص حد سے زیادہ قرضے نہیں دے سکیں گے جبکہ نئے قانون کے تحت اسٹیٹ بینک بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو قرضہ نہیں دے سکے گا۔ میں اس سے قبل بھی اپنے کالمز میں تحریر کرچکا ہوں کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ملکی مفاد میں نہیں اور مرکزی بینک کی خود مختاری کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت ایک وائسرے کی سی ہوگی اور وہ حکومت پاکستان کا تابع نہیں ہوگا۔ افراطِ زر اور جی ڈی پی گروتھ جو حکومت کی ذمہ داری ہے، اسٹیٹ بینک کو منتقل ہوجائے گی جبکہ ڈسکائونٹ ریٹ، ڈالر ریٹ اور بیرونی قرضوں کے معاملات میں اسٹیٹ بینک مکمل خود مختار ہوگا اور مرکزی بینک، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا جو ملکی مفاد میں نہیں۔ اسٹیٹ بینک کی نئی ریگولیشن سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کیلئے اب بینکوں سے قرضے لینا آسان نہیں ہوگا کیونکہ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ اگر وفاقی حکومت کو قرضہ دیں گے تو وفاقی حکومت بھی دیوالیہ ہوسکتی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک اس وقت وزیراعظم سے زیادہ تنخواہ اور مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں گورنر اسٹیٹ بینک متعین ہونے سے قبل وہ مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ عالمی طاقتوں کی نظریں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر مرکوز ہیں۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ امریکہ کے دبائو پر آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کے ذریعے پاکستان کیخلاف سخت اقدامات کرواکے ملک کودیوالیہ پن کی سمت میں گامزن نہ کردے۔میرے خیال میں ایسے میں جب ملک عدم استحکام اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، اسٹیٹ بینک کو کمرشل بینکوں پر نئی ریگولیشن کے نفاذ سے سرکاری قرضے لینے کی لاگت کافی بڑھ جائے گی کیونکہ اب وفاقی حکومت کو دیئے گئے قرضوں پر نادہندہ ہونے کا امکان ہے جو بالآخر کمرشل بینکوں کو کسی بھی متوقع نقصان کے خلاف پروویژن کرنے پر مجبور کرے گا جس کی ملکی معاشی حالت متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسے حالات میں جب حکومت اپنے مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں سے قرضے نہیں لے سکے گی تو عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر چلی جائے گی اور ان کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگی۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے حکومت پاکستان سے نئے قرضوں کے حصول کیلئے عالمی ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط جیسی شرط عائد کردے گا اور پاکستان کو ایسے بھنور میں پھنسادے گا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ اسٹیٹ بینک کو چاہئے کہ وہ ملکی مفاد میں نئے اقدامات فوری طور پر واپس لے کیونکہ معاشی خود مختاری پر سمجھوتہ ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی جب برسراقتدار آئی تھی تو اُس نے آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ کشکول تو نہ توڑسکی، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے سپرد کرکے ملکی سلامتی کو ضرور دائو پر لگادیا۔