میر خلیل الرحمٰن: چمنِ صحافت میں دیدہ ور

January 29, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

میر صاحب کے انتقال کے ایک عشرے کے بعد ان کے ادارے نے وہ رنگ جمایا کہ جیو کے اجراکے بعد ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا انقلاب برپا ہو گیا اور ہر آنے والے ٹی وی چینل کی نظریں مطلوب معیار حاصل کرنے کے لیے جیو پر لگ گئیں۔ حکومتوں کے کرتوت اپنی جگہ لیکن ان کا نوٹس لینا، انہیں سامنے لانا، اس کے فالو اپ میں رائے عامہ کی تشکیل کا کردار نبھانا، اعلیٰ اور لازمی پیشہ ورانہ صحافتی اقدار کا تقاضارہا ۔اس پر حکومت بیزار ہوتی اور غضب ڈھاتی رہی، اِس ہی کے متوازی یہی حکومتیں اپنے ترقیاتی کاموں اور جمہوری و سیاسی عمل کے حوالے سے اور بڑے آمرانہ اقدامات کے بیباک پروفیشنل نوٹسز کے حوالے سے ادارہ جنگ کی بے لاگ لیکن پیشہ ورانہ اقدار کی حامل پالیسی کی بینی فشری بھی بنتی رہیں اور اس سے بیزار بھی۔میر صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی کے عروج پر روزنامہ جنگ پاکستان کا سب سے بڑا اخبار بن کر لندن سے بھی شائع ہونے لگا ۔ادارہ جنگ سے ہی پاکستان کے مثالی سوسائٹی میگزین ’’اخبار جہاں ‘‘ اور ’’میگ‘‘ بھی شائع ہونے لگے۔ ہر دو ہفتہ وار پبلی کیشنز نے ملکی میگزین جرنلزم کو ایک نیا رنگ دیا۔ ’’اخبار جہاں ‘‘کی سرکولیشن کا دائرہ تو دنیا بھر میں موجود آباد پاکستانیوں تک وسیع ہو گیا ۔ادارے کا یہ پروجیکٹ میر صاحب نے اپنے بڑے صاحبزادے میر جاوید رحمٰن کے سپرد کر دیا جو پاکستان کی سماجی اور ثقافتی نفسیات اور ضروریات کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔پھر مندرجات کو مطلوب تصویری معاونت (PICTORIAL SUPPORT)کی فراہمی اورکلر پرنٹنگ کی باریکیوں کو سمجھنے اور بمطابق پروڈکشن کی مہارت میں تو میر جاوید صاحب یکتا تھے ۔پوری پاکستانی صحافتی انڈسٹری میں میگزین ٹائٹل کی اسٹال ویلیو بنانے میں میر جاویدرحمٰن کا مقابل کوئی نہ تھا۔ 2001میں جیو چینل کی لانچنگ اصل میں میر خلیل الرحمٰن کے اس خواب کی تعبیر تھی جو انہوں نے ایوبی اور پھر ضیائی ادوار میں دیکھے، نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا میں آنے کا عزم باندھا تھا اس کے لیے اپنی سی کوشش بھی کی لیکن میڈیا کی اس حساس جہت پر سرکاری اجارہ داری برقرار رکھنے کی ذہنیت آڑے آتی رہی۔کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا، میر شکیل الرحمٰن نے ہر نومولود کی طرح آنکھ تو ماں کی گود میں کھولی لیکن تربیت اوائل بچپن سے آدھی گھر اور نصف ادارہ جنگ میں میر خلیل صاحب کی نگرانی میں حاصل کی۔سو شکیل صاحب اپنے ہی صحافتی ادارے میں پیشہ ورانہ وسعت پیدا کرنے اور ملکی میڈیا کو انڈسٹری کے لیول پر لانے کے لیے درکار ’’ہائی وولٹیج کرنٹ ‘‘ کا مشاہدہ انہوں نے کیا جنہوں نے انہیں جنگ کی اشاعت کا آغاز، لاہور سے اور کراچی سے جیو کی لانچنگ کرتے دیکھا اور وہ اس میں عملاً ان کے ساتھ رہے ۔

میر خلیل الرحمٰن سے جو پیشہ ورانہ رابطے میں رہے اور ان کا وسیع تر سماجی حلقہ احباب اس امر کا شاہد رہا اور گواہ ہے کہ پاکستانی صحافت کے اس لیجنڈ کی سوچ کتنی اسلامی ،جمہوری اور قومی تھی وہ اپنے صحافتی ادارے کو مکمل قومی بنانے اور اسی حیثیت میں بڑھانے کے صرف متمنی ہی نہیں تھے اس کی جملہ مطلوب صلاحیتوں سے مالا مال تھے جنہیں کمال مہارت اور حکمت سے استعمال کرتے انہوں نے اللہ پر بھروسے اور مدد سے اپنے خواب کی تعبیر خود نکالی جو رہ گیا اس کے لیے آل اولاد کو تیار کرگئے۔ میں بطور طالب علم اور استادِ صحافت کے اپنی تدریسی پیشہ ورانہ زندگی کےساتھ ساتھ ادارہ جنگ سے اپنی عشروں کی عملی و مشاورتی وابستگی کی بنیاد پر ملکی صحافتی تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی علمی دیانت کا لازمی تقاضا جانتا ہوں کہ اگر ملکی میڈیا انڈسٹری کو نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کی اجازت دینے والے اپنے خلاف وکلا کی تحریک میں وردی والے ناراض صدر مشرف، و کلاء تحریک کی بھرپور کوریج سے باز نہ آنے کے اشتعال میں جیو،انگلش کو بند کرنے کی سزا نہ دیتے تو یہ بین الاقوامی پاکستانی انگلش چینل آج دنیا میں پاکستان کے قومی امیج کو بہتر سے بہتر کرنے، کتنے ہی معاملات میں ملکی مفادات کا دفاع کرنے اور اس حوالے سے بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی کیپسٹی بلڈنگ اور منظم کرنے میں ایک بہت منظم ، مسلسل اور نتیجہ خیز کردار ادا کرتا ۔سیاست و صحافت اور میڈیا گورنمنٹ ریلیشنز کا طالب علم ہونے کے ناطے ناچیز کی یہ رائے اس عمر پیری میں پختہ ہو گئی کہ پاکستان میں سیاسی انتشار اور تقریباً مکمل سیاسی ڈیزاسٹر ہونے پر جب بھی فوجی ڈکٹیٹرز نے اقدار سنبھالا، اس کے پس پردہ مکمل واضح اور قابل دید آواز خلق کو شکل میں زور دار نقارہ بجتا سنا گیا ۔فوجی آمروں نے اپنے دور کا آغاز سول کی ملاوٹ سے کیا اور پھر آغاز میں بہت کچھ اچھا کیا ،قابل ہضم ہی نہیں ایٹ لارج قابل قبول کیا لیکن اپنے اقتدار کے وسط کے بعد ان کی غیر آئینی حیثیت کا رنگ غالب ہونے لگتا ہے ۔وہ انتظامی اور سیاسی ڈیزاسٹرز کرتے کرتے اپنے اچھے کئے کو خود ہی بلڈوز کرتے کرتے اس کی انتہائی شکل بنا کر انجام کو پہنچتے رہے ۔جیو، انگلش جو محدود پاکستانی انگریزی دان طبقے سے زیادہ پاکستان کی سمندر پار ابلاغی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نکالا گیا تھا ایسے ہی آمرانہ ڈیزاسٹر کی نذر ہو گیا۔

ادارہ جنگ کے بڑے فیصد اور غلبے کے ساتھ بلاشبہ ہمارے ملکی میڈیا نے قیام پاکستان کے بعد بلاشبہ، بعض پیشہ ورانہ خامیوں، کمیوں کے ساتھ اور منفی حکومت و سیاست سے متاثر ہوئے بھی تعمیر پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔قومی یکجہتی کے فروغ، عوام کو مطلوب اطلاعات پہنچانے، شدت سے مطلوب درکار رائے عامہ کی تشکیل اور تفریح عامہ کو گھر گھر پہنچانے اور عوام الناس کو خوش رکھنے اور ان میں زندگی کا اعتماد بڑھانے، سیاسی بیداری، اقتصادیات کو تیز تر کرنے پھر بہت اہم ملکی نظریاتی سرحدوں کے دفاع اور دفاع پاکستان کے لیے عظیم تر خدمات انجام دی ہیں ۔ہنستے ، مسکراتے، شہد کی مکھی کی طرح مصروف عمل رہتے میر خلیل الرحمٰن کی نتیجہ خیز جدوجہد، قیام پاکستان کے بعد مطلوب انداز کی قومی صحافت کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔(جاری ہے)