حکومتوں کا موازنہ

February 07, 2022

آج وطن عزیز میں غریب سے لے کر کروڑ پتی تک ’’مہنگائی ہے مہنگائی ہے‘‘ کی دہائی دیتا دکھائی دے رہا ہے۔ 2008 میں جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیر اعظم حلف لیا تو ملک میں جس طرح کے حالات تھے ان سے نہیں لگتا تھا کہ ملک بہتری کی طرف جائے گا، کیونکہ بم دھماکوں اور دہشتگردی نے معیشت کا بیڑا غرق کردیا تھا اوپر سے عالمی سطح پر معاشی بحران نے امریکہ جیسے ملک میں بھی بے روزگاری بڑھا دی تھی۔ یوسف رضا گیلانی نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کے سامنے ایک جنگ زدہ ملک اور تقسیم زدہ قوم تھی۔ خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ریاست پاکستان کی رٹ نہ ہونے کے برابر تھی، بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک عروج پر تھی، کراچی میں شام ہوتے ہی سڑکیں خالی ہوجاتی تھیں، صنعتکار یکے بعد دیگر ملک سے اپنا سرمایہ باہر لے جارہے تھے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 150ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر چکی تھیں، پھر 2010کے سیلاب اور 2011کی برسات نے جو تباہی پھیلائی وہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ زراعت تباہ ہوئی، لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی،ملک کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، یہ وہ حالات تھے جن میں یوسف رضا گیلانی ہمارےوزیر اعظم تھے۔

سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں 1973کے آئین کو اصلی شکل میں بحال کیاگیا قانون کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی برتری کو یقینی بنایا گیا اور اپوزیشن سے محاذ آرائی کئے بغیر یہ سب کچھ ہوا۔ 13سال بعد قومی مالیاتی ایوارڈ کی صوبوں میں تقسیم ہوئی بلکہ صوبوںکے حصوں میں اضافہ بھی ہوا، بلوچستان کی محرومیاں دور کرنے کے لئے ’’آغاز حقوق بلوچستان‘‘ پروگرام شروع کیاگیا۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں 80قومی اداروں کے 5لاکھ مزدروں میں 100 ارب کے 12فیصد شئیرز مفت تقسیم کئے گئےجبکہ عمران خان کے دور میں ہزاروں مزدروں کو نوکریوں سے جبری فارغ کیا گیا، گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر مزدروں کو بقایاجات دیئے بغیر گھر بھیج دیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت ہی تھی جس نے بینظیر کارڈ کا آغاز کیا اور اس حکومت میں70لاکھ گھرانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد مالی امداد دی گئی، وسیلہء حق کے ذریعے تین لاکھ گھرانوں کو 3لاکھ تک کے بلاسود قرضے دیئے گئے۔ آج عمران خان کی حکومت کو ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ سندھ نے کسانوں کو گندم کی قیمت دوسروں صوبوں سے زیادہ کیوں دی، دوسری طرف یوسف رضا گیلانی کی حکومت کا ہی یہ کارنامہ تھا کہ سرکاری قیمت 425سے بڑھا کر 3گناہ اضافہ کردی تھی جس کے بعد گندم کی امدادی قیمت 1200ہوگئی اور ملک میں گندم اتنی پیدا ہوئی کہ پاکستان گندم برآمد کرنے لگا اور آج حال یہ ہے کہ باوجود زرعی ملک ہونے کے پاکستان میں گندم موجود نہیں اور ہمیں امپورٹ کرنی پڑ رہی ہے۔کپاس کی قیمت طے کرنے کے لئےیوسف رضا گیلانی کی حکومت نے فری مارکیٹ نظام متعارف کروایا جس کے بعد کسانوں کو کپاس کی قیمت عالمی منڈی کے برابر ملنے لگی۔ ڈیزل کے 32روپے والے مہنگے یونٹ کے بجائے، زراعت کے لئے ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے 8روپے یونٹ کا فلیٹ ریٹ مقرر کیا گیا، جس سے کسانوں کی مجموعی آمدنی میں 600ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔

یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو جس طرح کے بحرانوں کا سامنا تھا، اس سے پہلے اور بعد کی حکومتوں کو ایسے کسی چیلنج کاسامنا نہیں رہا مگر گیلانی نے بطور وزیر اعظم کسانوں اور مزدروں کے لئےجو کام سر انجام دیئے وہ صرف پی پی پی کی ہی حکومت میں کیوں ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر 2007ءمیں پی پی پی کے حکومت میں آنے سے پہلے کسانوں کی مجموعی آمدنی 546ارب روپے تھے جو 2012ءمیں بڑھ کر 1168روپے ہوگئی یعنی 622 ارب روپے کا اضافہ۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں 2008سے 2012تک 3289 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا اور اس دوران بجلی کے کئی منصوبے لگے ، لگ بھگ 3500سے زائد میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوئی۔ جبکہ 2000میگاواٹ پن بجلی کے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ 2007میں ملک کی مجموعی پیداور 10452تھی جبکہ 2012ءمیں ملک کی مجموعی پیداوار 19000ارب تک پہنچ گئی یعنی 80 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، ملکی برآمدات 26ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جس کے بعد آج تک اتنی برآمدات پاکستان نہ کرسکا۔

یوسف رضا گیلانی نے جو اپنے چار سال میں کیا اس کا کچھ حصہ تحریر کر سکا ہوں، اتنا کچھ لکھنے کے بعد میرا عمران خان سے سوال ہے کہ کیا سابق وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد ماضی کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا؟ کیا یوسف رضا گیلانی بھی یہ کہتے تھے کہ پچھلی حکومت نے ملک تباہ کیا اور میرے پاس عوام پر ٹیکس لگانے، تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے علاوہ کوئی حل نہیں ؟ نہ یوسف رضا گیلانی نے ٹیکس لگائے نہ ہی بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کیا جتنا آج کے دور میں ہوا جبکہ گیلانی دور میں تو تیل کی قیمت بھی عالمی منڈی میں آج کی قیمتوں سے دگنی تھی۔ یوسف رضا گیلانی دور میں ٹیکس محصولات میں بھی اضافہ ہوا لیکن نہ اس حکومت نے عوام کو ٹیکس چور کہا اور نہ ہی مزید ٹیکس لگائے بلکہ جہاں ممکن ہوا عوام کو ٹیکس ریلیف دیا۔ جس گیلانی حکومت کو موجودہ حکومت بدعنوان کہتے نہیں تھکتی وہ موجودہ حکومت سے زیادہ برآمدات کر رہی تھی، اس حکومت میں کسان بھی زیادہ کما رہا تھا، اس حکومت میں تنخواہوں میں بھی بے تماشہ اضافہ ہوااور یہ سب بہتریں حکمرانی سے ممکن ہوا، نہ وہ آئی ایم ایف کے دبائو میں آئے اور نہ ہی ملکی خودمختاری پر حرف آیا۔ موجودہ حکومت سے یہ چار سال کا موازنہ ہی کافی ہے۔ اس کے باوجود امید ہے کہ آپ اپنے آخری سال میں عوام پر ہونے والے مظالم کا کچھ ازالہ کردیں گے۔