ریاستِ مدینہ کا ماڈل

February 09, 2022

بحیرہ احمر سے سو میل کے فاصلے پر سعودی عرب کے مغرب میں واقع مقدس شہر مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبتِ خاص کا حامل شہر ہے۔ یہ 622 عیسوی کا بابرکت سال تھا جب حضور ؐ نے مکہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ پہنچے جسے پہلے یثرب کہا جاتا تھا۔ وہاں آپﷺنے بنی نوع انسان کی عظیم ترین کامیابیوں کی بنیاد رکھی۔ امن، افہام و تفہیم، ہم آہنگی، فلاح و بہبود کی سرزمین جس نے آنے والی تمام اقوام کے لیے رول ماڈل کا درجہ پا لیا۔ صدیوں بعد بھی وہ رول ماڈل ناقابلِ موازنہ ہے اور وہ پیچیدگیاںجن سے آج انسانیت دو چار ہے ان سے نکلنے کا آج بھی واحد راستہ مدینہ کی ریاست سے ہو کر گزرتا ہے۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان نے مدینہ کے آئین کو حکمرانی کی بنیاد کے طور پر باضابطہ طور پر اپنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کاوش کی کامیابی ، عزمِ صمیم، اصولوں کی پاسداری، غیر متزلزل ایمان اور کسی بھی حوالے سے سمجھوتہ نہ کرنے پر منحصر ہے۔

مدینہ کا آئین انسانی تاریخ کا بہترین آئین تسلیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کے لیے، یہ دستاویز میگنا کارٹا ہے جسے کینٹربری کے آرچ بشپ سٹیفن لینگٹن نے انگلستان کے اس وقت کے بادشاہ جان کے لیے تیار کیا تھا۔ دستخط کرنے والی جماعتوں میں باغی گروپس، بیرنز اور چرچز کے سربراہ شامل تھے۔ یہ سب کچھ انگلستان میں 1215 میں ہو رہا تھا،جبکہ مدینہ کا آئین پہلے ہی 622 عیسوی میں نافذ ہو چکا تھا۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ مغربی زعماء نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑے قانون دان کے طور پر تسلیم کیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو شہر ٹوٹ پھوٹ اور بد نظمی کا شکار تھا۔ متحارب قبائل، جن میں سے دو اوس اور خزرج تھے ،تین یہودی قبائل سمیت مسیحیت اور صائبین سمیت دیگر مذاہب کے لوگ بھی موجود تھے۔کچھ مکہ کے وہ لوگ تھے جنہیںکفار نے ظلم و ستم کرنے کے بعد آبائی شہر سے نکال دیا گیا تھا، جنہیں ’’مہاجرین‘‘ کہا گیا۔ مدینہ اکثر فرقہ وارانہ جنگوں، لڑائی جھگڑوں اور تشدد کا شکار رہتا ۔آپ ﷺ نے مدینہ میںجو آئین رائج کیا اس نے مدینہ کو آنے والے ہر دور کے لیے نمونہ بنادیا۔ اسکالرز اور مورخین نے اس آئین کوہر دور کے لیے مکمل ضابطہ حیات قرار دیا ۔مدینہ کے آئین میں اتحاد اور مساوات سب سے نمایاں خصوصیات تھیں ۔ نبیؐ نے پہلے اصول کے طور پر مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کو پروان چڑھایا۔ اس اتحاد اور مساوات کے نتیجے میں حقوق و فرائض کا ایسا نظام وضع ہوا جومعاشرے کے ہر فرد کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ، لسانی، صوبائی اور نسلی بنیادوں پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرے اور لوگوں کے درمیان اتحاد کو برقرار رکھے۔

مدینہ بطور نمونہ ہمیں ’’قانون کی حکمرانیــ‘‘ سکھاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متفقہ قانونی نظام پر سختی سے عمل کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر اور غریب کے درمیان امتیازختم کیا۔ قومیں ناانصافی کے باعث تباہ ہوتی ہیں۔جو بھی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ، اقربا پروری اور اِن سے خصوصی سلوک کی حمایت کرتا ہے، وہ قرآن و سنت کے رہنما اصولوں اورریاستِ مدینہ کے بنیادی فلسفہ سے انحراف کرتا ہے۔ مدینہ کے نظریات کے تحت ہر شہری قانون کے سامنے برابر ہے اور اس کے ساتھ یکساں عزت اوروقار کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ مغربی دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے تحت چارٹر آف رائٹس کا آغاز کیا جب کہ ہمارے نبی کریم ؐ نے 1400 سال پہلے اس پر عمل کروایا۔ پاکستان کے معاملے میں غور کیا جائے تو حیثیت، طاقت اور پیسے کے حوالے سے عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ قانون واضح طور پر طاقتور اور امیر کے حق میں ہے۔ یہاں تک کہ زندگی کی بنیادی ضروریات بھی امیروںکے لیے فراواں ہیں۔ ایسے حالات میں مدینہ کے ماڈل کی پیروی کے لیے نا صرف ریاست بلکہ ہر شہری کو بے پناہ عزم اور جدو جہد کی ضرورت ہے جب تک مدینہ کے آئین کے اصولوں کو نافذ نہ کر دیا جائے۔

مدینہ کے آئین کے سب سے نمایاں حصوں میں سے ایک فلاحی ریاست کاتصور بھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست اور ہر صاحب استطاعت شہری کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ ضرورت مندوں، کمزوروں، پسے ہوئوں، بیواؤں، یتیموں اور بچوں کی بہترین دیکھ بھال مذہب، طبقے، مسلک یا نسلی پس منظر سے ماورا ہو کر کرے۔ مورخین اور علماء کے مطابق، میثاقِ مدینہ کا نفاذ خوشی، فلاح اور ہم آہنگی کی علامت بن گیا۔ پاکستان میں غربت تباہی مچا رہی ہے۔ مدینہ کو ایک نمونہ سمجھنا صرف ریاست کا ہی نہیں بلکہ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اگرسچے مسلمان ہیں تو ایک فلاحی ریاست قائم کرنے میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیں۔ یہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ عمران خان کا ریاست مدینہ ماڈل حکومتِ پاکستان پر منحصر نہیں ہے بلکہ پاکستانی عوام، ہر صاحب استطاعت، جوان اور بوڑھے کی ذمہ دار ی ہے۔ دوسری طرف اس نظریے کی مخالفت اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مدینہ کے وژن کی براہِ راست مخالفت ہےکیونکہ مدینہ کے ماڈل نے قرآن و سنت کو برتر رکھا۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور انسان صرف اللہ کی حاکمیت کا نمائندہ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، پاک سرزمین، ایک ایسی سرزمین ہے جو تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے امن، ہم آہنگی اور ترقی کے یکساں حقوق کی ذمہ دار ہے۔ مدینہ بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے، سمت متعین ہو چکی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، عملی اقدامات کا پختہ ارادہ قرآن و سنت کی روشنی میں بے پناہ ذمہ داری اور مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ مدینہ کو بطور رول ماڈل لینا صرف حکومتی یا شخصیاتی سطح کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری اور ضرورت بھی ہے۔