یاور مہدی :بڑا آدمی، بڑے کام

February 13, 2022

ریڈیو پاکستان اور آرٹس کونسل کے ذریعے کراچی کی ادبی و ثقافتی سرگرمیاں بلندیوں کی طرف لے جانے والے یاور مہدی 19جنوری 2022 کو 84سال کی عمر میں اپنے مداحوں سے بچھڑگئے لیکن ان کے انتھک کام اور خلوص و محبت کی روایات ایک طرف آرٹس کونسل کراچی کی قابل قدر فعالیت کے مزید بڑھتے گراف کی صورت میں نمایاں ہے تو دوسری طرف ریڈیو اور ٹی وی بھی تاحال ایسی کیفیت سے محفوظ ہیں جس میں نئی اڑان اور عظمتِ رفتہ کے امکانات محدود ہوں۔ میرا تعلق اگرچہ بچوں کےپروگرام میں شرکت کے باعث ریڈیو سے کم عمری میںہی قائم ہو گیا تھا مگر یاور مہدی سے ملاقات 1964میں منعقدہ غالباً پہلے یا دوسرے ہفتہ طلبا کے مباحثے میں ہوئی جس میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد کی طرف سے میں اور امیر حیدر کاظمی شریک ہوئے تھے۔ سرخ و سفید رنگت ، دراز قامت، شائستہ لب و لہجے کے حامل یاور مہدی اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے۔ ’’ہفتہ طلبا‘‘ کے بعد جب بھی ریڈیو اسٹیشن جانا ہوا، یاور مہدی کے کمرے میں کالجوں اور یوینورسٹی کے نمایاں طلبا ، اساتذہ اور دیگر صاحبانِ کمال سے ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ ایسا مقام تھا جہاں سے دوسرے پروڈیوسر صاحبان کو بھی ہنگامی یا عمومی صورتِ حال میں حسبِ ضرورت ٹیلنٹ دستیاب ہو جاتا تھا۔ 1967 میں کراچی ٹیلی ویژن کا افتتاح ہوا تو ٹی وی کو بھی ریڈیو اسٹیشن ، بالخصوص بزمِ طلبا سیکشن سے ٹیلنٹ ملنے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ مذکورہ افتتاح سے چند دن قبل راولپنڈی سے آئے پروڈیوسر عون محمد رضوی ٹی وی کے کوئز پروگرام کے لئے ٹیلنٹ کی تلاش میں یاور مہدی کے کمرے میں آئے اور لمحوں میں مجھ سمیت کئی لوگوں کو منتخب کر کے چلے گئے۔ یوں ریڈیو اور ٹی وی کے باہمی تعاون نے ٹیلی ویژن کو مطلوب افراد کی تلاش میں مشکلات کا شکار نہیں ہونے دیا۔ یاور مہدی کو قدرت نے انسان شناسی،پی آر شپ ،تنظیمی صلاحیتوں، دیانت اور اخلاق کی ایسی خوبیوں سے مزین کیا کہ کئی ملازمتوں سے گزرتے اور مواقع سے صرفِ نظر کرتے جب انہیں اپنی پسند کے شعبے براڈ کاسٹنگ میں کام کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے 1965کی جنگ کے انتہائی حساس پروگراموں سمیت اتنے بڑے اور اتنے سارے کام کئے کہ یقین کرنا مشکل ہوتاہے۔ریڈیو میں کئی غیر اہم یا روکھے پھیکے سمجھے جانے والے پروگراموں کو انہوں نے ہاتھ میں لیا تو وہ اہم اور مقبولیت کے حامل پروگرام کہلانے لگے۔ 15روز میں ایک دفعہ نشر ہونے والا پروگرام ’’یونیورسٹی میگزین‘‘ ان کے پاس آیا تو ’’بزم طلبا‘‘ کے عنوان سے روزانہ نشر ہونے والا مقبول پروگرام بن گیا۔ سماجی سرگرمیوں سے متعلق ہفتہ بھر میں ایک بار نشر ہونے والا ’’ریڈیو نیوز ریل‘‘ یومیہ نشر ہونے والا ’’شہر نامہ‘‘ کہلایا اور مقبول عام ہوا۔ ’’صبح دم دردوازہ خاور کھلا ‘‘ اور’’شب کو ہے گنجینہ گوہر کھلا‘‘ جیسے کئی پروگرام دلچسپ ہی نہیں شائستہ وپرلطف انداز بیان کے فروغ اور شعوری سطح بلند کرنے کا ذریعہ بھی تھے۔ ایک پوری عالمی سروس سمیت اتنا کچھ یاور مہدی کے کریڈٹ میں ہے جس کے صرف عنوانات بیان کرنے کے لئے خاصا وقت درکار ہے۔ ایک اہم کام کرکٹ کمنٹری کا اردو میں آغاز ہے۔ یاور مہدی نے یہ کام اس وقت کے بڑے ٹورنامنٹ ’’جنگ گولڈ کپ‘‘ سے شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ منیر حسین کو اردو کمنٹری کے لئے آمادہ کیا اور روزنامہ جنگ کے بانی میر خلیل الرحمٰن سے بختیاری یوتھ سینٹر میں کمنٹری بوتھ بنوانے کی استدعا کی جس کا نتیجہ کرکٹ کمنٹری کے اردو میں جاری ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔

یاور مہدی نے جو پروگرام متعارف کرائے ان کی فہرست متنوع اور طویل ہے۔ ان پروگراموں کو اپنے وقت کی جن اہم ہستیوں نے یادگار بنایا ان کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور جنہوں نے بعد میں مختلف شعبوں کو آفتاب و ماہتاب بن کر جگمگایا ان کی بھی طویل فہرست ہے۔اس وقت جو ہستیاںیادداشت میں ابھر رہی ہیں ان میں مجنوں گور کھپوری، ڈاکٹر شوکت سبزواری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر منظور الدین احمد، سید محمد تقی، جسٹس قدیر الدین، پروفیسر انجم اعظمی، ڈاکٹر ابوللیث صدیقی، ڈاکٹر منظور احمد ، پروفیسر حشمت لودھی، بیگم سلمٰی زمن، پروفیسر حسن عادل، پروفیسر مکرم شیروانی، امداد نظامی، پروفیسر حسن عسکری فاطمی، پروین شاکر، مظفر حسین شاہ ، دوست محمد فیضی، رسول احمد کلیمی، خوش بخت شجاعت، پیرزادہ قاسم، شفیق پراچہ، اسد اشرف ملک، جاوید جبار، سراج الاسلام بخاری، اصلاح الدین، چشتی مجاہد، انوار احمد خان، کشور غنی، منور کلیمی، انیس ہارون، ولی رضوی، سیما رضا، خواجہ رضی حیدر، نصیر ترابی، جاذب قریشی، اشرف شاد، پروفیسر انیس زیدی، نیلو فر عباسی، ساجدہ قدوسی، شہر یار جلیس، طاہرہ حسین، ظفر قریشی، سعدیہ صدیقی، فائزہ صدیقی، نقاش کاظمی، شاہ جہاں بیگ، اعجاز شفیع گیلانی، ضیا الاسلام زبیری، عشرت آفرین، شفیع نقی جامعی، اقبال حیدرشیدائی، محمدنقی، خواجہ قمرالحسن اور حمزہ علی قادری شامل ہیں۔

ہمارا ریڈیو اختراعی سوچ، محنت اور اخلاص کی بنا پر پہلے بھی نمایاں ہوا اور ریڈیوکے ہر گھر اور گاڑی کی لازمی ضرورت بننے کے امکانات آج بھی موجود ہیں۔ آرٹس کونسل سال 1985میں اس حال میں تھی کہ اراکین کی مجموعی تعداد137تھی اور وہ بھی غیر فعال۔ یاور مہدی، منظر اکبر، علی رضوی، عزیز راقب رضوی کی ایس ایم انعام کے گھر پر بیٹھک میں ایک ایجنڈے کے تحت گروپ تشکیل دے کرنئی ممبرسازی کے ذریعہ نیا خون لایا گیا۔ جمہوری طریق کار کے مطابق مختلف مراحل سے گزرتی آرٹس کونسل اب ہزاروں پر جوش ارکان پر مشتمل ہے اور اس کے متعددادارے سرگرم ہیں۔ عالمی اردو کانفرنس سمیت معرکتہ الآرا پروگراموں نے اسے دنیا کے انتہائی فعال ثقافتی اداروں میں شامل کر دیا ہے۔ یاور مہدی نے آرٹس کونسل کے تن مردہ میں جان ڈالنے کا جو عمل شروع کیاتھا وہ احمد شاہ کی سرکردگی میں اوج کمال پر نظر آرہا ہے۔

اللہ تعالیٰ یاور مہدی کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں مقام اعلیٰ عطا ہو اور وطنِ عزیز سمیت کرہ ارض ان کے خوابوں کے مطابق امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے (آمین) ۔