پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ اور ملکی منظرنامہ!

February 20, 2022

حکومت نے ایک بار پھرپٹرول بم گرا کر عوام کے لیے مشکلات کے نئے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔ پٹرول کی نئی قیمت اب ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 4فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ حکومت نے اس میں کمی کی بجائے مزید اضافہ کر دیا ہے۔اربابِ اقتدار کےغیر دانشمندانہ فیصلوں نے عوام کو حکومت کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے مہنگائی میں 400فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعدادمیں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، حکومت نے عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا ہے اور اب تو دو وقت کی با عزت روٹی کمانا بھی ان کے لیے مشکل ترین بنا دیا گیاہے۔ حکومت کو قوم پر رحم کرنا چاہئے اور عوام کے معاشی قتلِ عام کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشر با اضافے پر وفاقی وزراء کے بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ لگتا ہے کہ ان لوگوں نےظلم کی تمام حدود عبور کرلی ہیں۔ 22کروڑ عوام اب نام نہاد تبدیلی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہر ادارہ تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی کے لیے اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتیں۔ محض عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔اگر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو عوام کی اتنی ہی فکر تھی تو یہ لوگ ا سٹیٹ بنک کے معاملے پر حکومت کا ساتھ نہ دیتے۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جیتنے کا خواب دیکھنے والے وزیر اعظم کو خیبر پختونخواکی طرح یہاں سے بھی اچھا نتیجہ نہیں ملے گا۔ پنجاب میں حکومتی پالیسیوں سے اس کے اپنے اتحادی بھی خوش نہیں ہیں اور عوام میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کی آنکھوں پر پردہ پڑ چکا ہے۔اسےعوام کو درپیش مسائل اور تکالیف نظر نہیں آرہیں۔ طرفاتماشا یہ ہے کہ ایک طرف مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے نزدیک پاکستان میں مہنگائی دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں افراطِ زر ڈبل ڈیجٹ میں اور ملکی روپیہ، بنگلہ دیش کی کرنسی سے بھی زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ منی بجٹ کے ذریعے بھی عوام پر دو ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ اشیائے خورونوش پر 17فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں،مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے،ریلیف کے نام پر جھوٹے وعدے اور محض طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں مگر وزیر اعظم کے اعصاب پر اپوزیشن سوار ہے۔ انہیں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ حکمرانوں نے اگر پانچ فیصد بھی ڈیلیور کیا ہوتا تو آج ملک کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔ وزیر اعظم عمران خان کا دعوی ٰ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ظالمانہ شکنجے سے پاکستان کو آزاد کروائیں گے مگرمقامِ افسوس ہے کہ انہوں نے ہی ملک و قوم کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرکے اپنا وقت پورا کرنا چاہتی ہے۔ملک کو ان حالات تک پہنچانے کے ذمہ دار موجودہ اور سابق حکمران ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقد مے کو نیب کے لیے ٹیسٹ کیس قرار دینے کا معاملہ بھی بڑا اہم ہے۔ جب تک احتساب کا نظام بلا تفریق کام نہیں کرے گا، اس پر عوام کا اعتماد قائم نہیں ہو سکتا۔ ملک و قوم کوسلیکٹڈ احتساب کسی طورپر قابلِ قبول نہیں ۔ جس کسی نے بھی ملک کے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے وہ جواب دہ ہے۔ حکمرانوں کےترقی و خوشحالی کے دعوئوںکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف کئی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر خرچ کرکے اس کے ثمرات سے استفادہ کررہے ہیں جب کہ دوسری طرف پاکستان میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی مجموعی رقم2655ملین روپے کا پانچواں حصہ بھی استعمال نہیں کرسکی۔ وفاقی وزارتوں کی ناقص کارکردگی پر متعلقہ وزراء کی چھٹی ہونی چاہئے تھی مگر وزیر اعظم انہیں اعلیٰ کارکردگی کے سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔ قوم کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جیسے جیسے پاکستان میں مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی ویسے ویسے اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں چنوں میں ہونے والا حالیہ واقعہ بھی افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ جو مقامی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ سانحہ سیالکوٹ کے بعدحکومت نے ایسے واقعات کے تدارک کے بلند بانگ دعوے کئے تھے مگر عملی اقدامات نہیں کئے۔ حکومت نے اگر سنجیدگی سے سیالکوٹ سانحہ کا نوٹس لیا ہوتا تو میاں چنوں کایہ واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا۔ کسی شخص کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے علمائے کرام سمیت ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔