سلطان اور قلندر!

March 06, 2022

سیاسی لیگ میں ہِٹ اینڈ ٹرائل میتھڈ کے کھلے عام استعمال کے اعتراف کا سلسلہ کشاں کشاں ہے، عوام جان گئے ہیں کہ بلا ناغہ ٹی 20سیاسی میچ کھیلنے کیلئے نئی نکور بساط سجائی گئی، ترقیاتی رنز کے دعوے کرکے فیصل آبادی وکٹ بنائی گئی، فیلڈ ایمپائرز سے لے کر ٹی وی ایمپائرز تک سب فکس تھے، ہومیو پیتھک ایمپائرز کے سافٹ ویئر میں نو بال، وائیڈ بال، رن آؤٹ اور ایل بی ڈبلیو دینا تو دور آئوٹ دینے کا کوئی آپشن ہی نہ رکھا گیا، فیلڈرز کو پابند کردیا گیا کہ غلطی سے بھی بال یا کیچ پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی، انہیں کہا گیا کہ ایسے فیلڈ کرنی ہے جیسے ہاتھوں میں سوراخ ہوں۔ موجودہ سیاسی ٹیم کو اس قدر لامحدود آزادی میسر تھی جتنا کہ جھوٹ بولا جائے، نہ کسی بغاوت کا اندیشہ تھا اور نہ ہی حزبِ مخالف کا کوئی ڈر، اکثریتی ذرائع ابلاغ کو ہرا ہرا دکھانے کا پابند کردیا گیا، نہ صرف ہرا دکھایا اور سنایا گیا بلکہ اسے سچ ثابت کرنے کیلئے بار بار دہرایا گیا، ان بےمثال آئیڈیل حالات میں ترقیاتی رنز کے ڈھیر لگا کر نئے ریکارڈ بنانا تو اس ٹیم کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہیے تھا لیکن کہانی کچھ یوں رہی، ہر میچ میں ٹارگٹ کے حصول کیلئے اپنی ٹیم کے مقابل انتظامیہ کی ہی بی ٹیم اتاری جاتی رہی، عوام کو جلد ہی پتہ چل گیا کہ بی ٹیم مقابلے کی بجائے سہولت کاری کا کام سر انجام دے رہی ہے۔ غربت اور معاشی ناہمواری کو بولڈ کرنے کیلئے شعیب اختر قرار دے کر لائے جانیوالے گیند باز طاہر نقاش نکلے، جنہوں نے غربت کی وکٹیں اڑانے کی بجائے غریبوں کو بائونسر مار مار مڈل کو لوئر مڈل کلاس کی کیٹیگری سے بھی نکال دیا، بابر اعظم کہہ کر لائے جانیوالے بلے باز سارے کے سارے منصور اختر نکلے، عوام اتنے بھی معصوم نہیں ہوتے کہ انہیں مستقل بےوقوف بنایا جا سکے، وہ اس وقت ہکا بکا رہ گئے جب ٹومی گریگ فریب زنی کی انتہا کرتے ہوئے سلپ میں جانیوالی نامعقول شاٹس کو خوبصورت کور ڈرائیوز قرار دے ڈالا۔ سلیکٹڈ کھلاڑی چند اوورز ہی وکٹ پر ٹھہرنے کے بعد ڈریسنگ روم کو لوٹتے رہے، کبھی اوپننگ پلیئر، کبھی مڈل آرڈر اور کبھی ٹیل اینڈرز دھوکہ دیتے رہے اور کپتان ہر شکست کے بعد نئے کھلاڑی لاتا رہا۔ بیس سے کم قابل ترین کھلاڑی رکھنے کا اعلان کرنے والے نے نالائق ترین سو کھلاڑی جمع کر لیے، ایک طرف ٹیم سیاسی لیگ کے سارے میچ ہارتی رہی تو دوسری جانب ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ کی گردان جاری رہی، عوام معاشی رنز کیلئے ترستے رہے لیکن ٹومی گریگ جیسے پلانٹڈ کمنٹیٹرز جعلی خوشحالی کا سونامی آنے کا ڈھول پیٹتے رہے۔ خدا کی پناہ یہ ٹومی نالائق بالروں کی سیدھی سیدھی میڈیم فاسٹ بالوں کو محمد آصف کی گھومتی ہوئی ڈلیوری بتابتا کر شائقین کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے، انہوں نے اتنی لمبی لمبی چھوڑیں کہ وہ ان ڈھیلی ڈھالی بالوں کو وسیم اکرم کا یارکر اور وقار یونس کی بل کھاتی ڈلیوری قرار دیکر فلمیں چلاتے رہے۔ سیاسی پی ایس ایل میں تو اس ٹیم نے تعمیراتی کاموں کے چوکے، نوکریوں کے چھکے لگانے تھے جس سےیہ صاف مکر گئے، پوچھا گیا تو ڈھٹائی سے بولے سارے وعدے پورے کردیے ہیں، اس عظیم جھوٹ نے لاکھوں نوجوانوں کی توقعات چکنا چور کردیں، حصولِ فتح کے لیے برپا کشمکش ہی اصل میں میچ کی جان ہوتی ہے جس کا مظاہرہ اگر ہو تو میچ یادگار بن جاتا ہے لیکن موجودہ سیاسی لیگ میں ذرہ بھر حر کی توانائی نظر نہ آئی، جس کی وجہ سے شائقین کا موجودہ سیاسی ٹی 20لیگ سے دل اُچاٹ ہو چکا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کا اختتام بڑا ہی غیرمتوقع ہوا ہے، جس نے دنیا بھر میں موجود قلندروں اور ان کے چاہنے والوں کو خوشی کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا ہے، دورانِ میچ مخدوش سیاسی صورتحال سے خائف شائقین نے گو گو کے فلک شگاف نعرے لگائے جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے، شائقین نے اسے مکافاتِ عمل قرار دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبر کے سائے کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، جابر سلطان قلندروں کے سامنے کبھی بھی مستقل ٹھہر نہیں پائے، انہیں ایسی شکست فاش ہوئی کہ فرعون کی مانند صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)