معاشی بہتری کی کوششیں سیاسی کشیدگی کی نذر

March 29, 2022

تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالتے ہی جن مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت معاشی طور پر پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا جبکہ مالیاتی خسارہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھا۔ اس وقت یہی سمجھا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی معاشی ٹیم ان مشکلات کا سامنا نہیں کر پائے گی اور انہیں جلد ہی اپنے سیاسی حریفوں اور عالمی طاقتوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سیاسی ناقدین کی جانب سے ناتجربہ کاری کے طعنوں کو درخود اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اقدامات جاری رکھے۔ اس دوران کورونا کی وبا، ٹڈی دل اور غیر موافق موسمی حالات سے فصلوں کی پیداوار میں کمی جبکہ افغانستان میں جنگی حالات نے پاکستان کو معاشی طور پر کئی دھچکےلگائے لیکن وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھا۔

یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کم آمدنی والے افراد کےلیے احساس راشن پروگرام شروع کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 50 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے خاندانوں کو تین اشیائے ضرورت آٹا، گھی/آئل اور دالوں کی خریداری پر ہر ماہ ایک ہزار روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہر یونین کونسل کی سطح پر کم از کم 20،20 کریانہ اور یوٹیلیٹی اسٹوزر کی رجسٹریشن کر کے مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد افراد کو رعایتی نرخوں پر راشن فراہم کیا جائے گا اور مستقبل قریب میں اس پروگرام کے ذریعے اشیائے ضروریہ کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت نے صحت کارڈ کے ذریعے ہر خاندان کو دس لاکھ روپے تک کا علاج اپنی مرضی کے اسپتال سے کروانے کی سہولت فراہم کی ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کی مثال عموماً ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم ہی ملتی ہے۔

علاوہ ازیں حکومت کی کوششوں سے زراعت کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی ہوئی اور پاکستان میں چار بڑی فصلوں گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ برآمدات کے شعبے میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کا ذکر ضروری ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بحران کا شکار تھا لیکن اب یہ سیکٹر نہ صرف اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر رہا ہے بلکہ اس میں کئی ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے جس سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی میں بھی بہتری آئے گی۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اسپننگ، ویونگ، پروسیسنگ سے ایکسپورٹ سیکٹر تک ہر شعبے کے پاس کام کی اس قدر بہتات ہے کہ کسی کے پاس سرکھجانے کا بھی وقت نہیں۔ علا وہ ازیں انڈسٹری کو درپیش مشکلات اور مسائل حل کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، انڈسٹری اور سرمایہ کاری رزاق داود اور گورنر ا سٹیٹ بینک رضا باقر پہلے ہی مکمل تعاون کر رہے ہیں جبکہ ریفنڈز کی وقت پر ادائیگی سے انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت میں کمی آئی ہے۔

معیشت میں بہتری کے یہ آثار صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری تک ہی محدود نہیں بلکہ پراپرٹی، تعمیرات، سیمنٹ سازی،ا سٹیل اور آٹوموبائل کے شعبوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم معاشی بہتری کی جانب گامزن اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے ملک کے سیاسی استحکام پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے جاری سیاسی کشمکش نے کاروباری طبقے کو دوبارہ پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے بزنس کمیونٹی کا یہی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں بلکہ اس سے معاشی استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔اس وقت جاری سیاسی لڑائی کے سبب یہ اندیشہ ہے کہ کہیں سرمایہ کار دوبارہ تذبذب کا شکار ہو کر پیچھے نہ ہٹ جائیں۔

موجودہ حالات اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ جوں جو ں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں ویسے ویسے اپوزیشن کے احساسِ عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں یہ اندیشہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لی تو آنے والے عام انتخابات میں وہ دوبارہ زیادہ اکثریت کے ساتھ حکومت میں واپس آ سکتی ہے۔ اس لیےالگ الگ سیاسی نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیاں وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اکٹھی ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کسی گبھراہٹ کا شکار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے عوامی جلسوں کا انعقاد کر کےجس طرح کا جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اس سے اپوزیشن میں کشمکش پیدا ہو گئی ہے کہ کہیں وہ تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑی ہو گئی۔ یہ بات میں کسی انداز ے یا قیافے کی بنیاد پر نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری یہ رائے گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان سے ہونے والی تفصیلی ملاقات کے بعد قائم ہوئی ہے۔ تاہم میری دانست میں حکومت کو چاہئے کہ موثر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئےاپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تواشتعال انگیزی سے گریز کی پالیسی اپنائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر انتظامی اقدامات یا سبسڈی کے ذریعے آٹے، چینی اور پیٹرول کی قیمتوں کو مزید کم کر دیا جائے تو عوام میں پائی جانے والے عدم اطمینان کی کیفیت کو بھی کافی حدتک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مزید سال، ڈیڑھ سال کا سازگار ماحول میسر آجائے گا جس سے معاشی طور پر ملک کی حالت بھی مزید مستحکم کی جا سکے گی۔