تاریخ کا روشن ستارہ:ذوالفقار علی بھٹو

April 04, 2022

شہید ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کی ان شخصیتوں میں سےایک ہیں جو مر کر بھی زندہ ہیں۔ پاکستان کے عوام نے انھیں قائد عوام کے نام سے سرفراز کیا مگر ملک کی عدالتوں نے انھیں مجرم ٹھہرایا۔ ان کے چاہنے والوں نے انہیں شہید کا درجہ دیا جبکہ انکے مخالفین نے قاتل اور ملک دشمن کہہ کر پکارا۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کا کیس وقت کی عدالت سے نکل کر تاریخ کے کٹہرے میں پہنچ چکا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کراچی سے مکمل کی۔ مزید تعلیم حاصل کرنے امریکہ اور پھر قانون کی تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ شاہنواز بھٹو قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی رفیق تھے۔ انھوں نے جناح صاحب کے ہمراہ لندن میں گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ شاہنواز بھٹو مسلمانوں کے بڑے خیر خواہ تصور کیے جاتے تھے، جب وہ ریاست جونا گڑھ میں دیوان تھے جو وزیر اعظم کے برابر کا عہدہ تھا، تو انہوں کی کوششوں سے نواب آف جوناگڑھ نے ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا تھا جس پر بعد میں بھارت بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ سر شاہنواز بھٹو نے سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا کے ذریعے 1958 میں ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے۔ لیکن وہ عوامی ہیرو اس وقت بنے جب انھوں نے ایوب آمریت کی مخالفت کی اور معاہدہ تاشقند پر ایوب خان سے اختلافات کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایوب خان کی مخالفت کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔ بھٹو کے مخالفین کا خیال تھا کہ سر شاہنواز بھٹو کا بیٹا جس نے ابھی تک اقتدار کے محلوں کی غلام گردشیں ہی دیکھی ہیں، جس دن جیل کی سلاخیں دیکھے گا، پاکستان سے سیاست کو خیرباد کہہ کے راہ فرار اختیار کر لے گا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ امیر بھٹو کے اندر ایک غریب بھٹو سمایا ہوا تھا، ایک جاگیر دار بھٹو کے اندر سخت جان انقلابی بھٹو چھپا ہوا تھا۔ غریبوں اور محنت کشوں کا ہمدرد بھٹو ان کے لیے جان قربان کردے گا۔ جس نے سخت سے سخت حالات کا مسکراتے ہوئے سامنا کیا اور ہنستے ہوئے سولی چڑھ گیا۔

1965 ءکی جنگ کے دوران سلامتی کونسل میں ’’ہم ہزار سال تک لڑیں گے‘‘ جیسی تاریخی تقریر کے بعد مسٹر بھٹو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی مقبول ہو چکے تھے۔ اسلئے جب 18 جون 1966 میں معاہدہ تاشقند کے خلاف مسٹر بھٹو نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تو وہ پوری قوم کی دل کی دھڑکن بن گئے۔ کابینہ سے الگ ہونے کے بعد جب وہ 22 جون 1966 کو لاہور پہنچے تو عوام نے اُن کا زبردست استقبال کیا۔ عوام نے مسٹر بھٹو کو جس محبت سے نوازا، اسےدیکھتے ہوئے بھٹو شہید نے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے لیے ملک بھر میں جلوسوں سے خطاب کرنا شروع کردیا۔ جس کےبعد 30 نومبر 1967 کے روز لاہور میں پی پی پی کے قیام کا اعلان ہوا۔ پی پی پی کے قیام کے بعد ایوبی آمریت کے خلاف تحریک میں شدت آگئی جس میں پاکستان بھر کے طلباہراول دستے کے طورپر شامل تھے جس سے تحریک میں اور تیزی آگئی۔ اور بالآخر 25 مارچ 1969ءکو وقت کا آمر عوامی نفرت کے سیلاب میں بہہ گیا لیکن جاتے جاتے اپنے ہی بنائے ہوئے 62 کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرگیا جس نے آتے ہی اپنے آپ کو جمہوری جرنل ثابت کرنے کے لیے انتخابات کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف اس نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہ ہو سکے۔ جنرل یحییٰ خان کا اقتدار امن، قانون اور آئین کی پاسداری کی موت ثابت ہوا اور ملک دولخت ہوگیا، جسے یحییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا ۔ حکومت سنبھالتے ہی مسٹر بھٹو نے دیکھتے ہی دیکھتے 1971 کے کھنڈرات پر ایک عالی شان عمارت کی بنیاد رکھ دی۔

ملک کو ایک متفقہ عوامی، اسلامی اور جمہوری آئین دیا۔ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو لاہور میں متحد کیا ، بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ جوہری پروگرام تھا جس پر انہیں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ نے عبرت کی مثال بنا دینے کی دھمکی دی جس پر بعد میں عمل بھی کیا گیا ۔5جولائی 1977کو قائد اعظم کے جمہوری پاکستان پر تیسرے جرنیل نےقبضہ کرلیا اور بھٹو کو ایک غیر معروف شخص کے قتل کرنے کی سازش میں گرفتارکیا گیا جو خود تو بچ گیا مگر اس کا باپ مارا گیا۔ اپنی نوعیت کے اس عجیب و غریب مقدمے میں بھٹو کو پونے دو سال تک ہر طرح کی ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ اور پھر ایک متنازعہ عدالتی فیصلے، جسے عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے 4؍اپریل 1979کوراولپنڈی جیل میں عوام اور پاکستان کے مقبول ترین رہنما کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پاکستان کے عوام آج ایک بار پھر سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے شہید بھٹو کے عدالتی قتل پر جمع کروائے گئے ریفرنس کو سن کر سندھی وزیر اعظم کو انصاف دیا جائے۔