ملکی سیاسی استحکام اور عوامی مشکلات!

April 05, 2022

وطن عزیز میں سیاسی صورتحال ڈرامائی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے غیر ملکی سازش قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔بدقسمتی سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے عمل کو متنازعہ بنا دیاگیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل خالد محمودخان نے بھی بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا ہے۔ پوری پاکستانی قوم ہارس ٹریڈنگ کو لعنت سمجھتی ہے۔وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کیلئے انتخابی اصلاحات کی جائیں اور ضابطہ اخلا ق پر بھی عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں جماعتیں ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہی ہیں۔ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا، پاکستان کی سلامتی، ترقی وخوشحالی کا رازجمہوریت میں پوشیدہ ہے، آئین وقانون کی بالادستی کے بغیرہم بحیثیت قوم کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتے۔ آج پاکستان سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ملک میں جمہوری استحکام کیلئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ عدم برداشت کا سلسلہ بند اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہئے۔ پاکستان کو آگے لیکر چلنے کیلئے جمہوریت کو تقویت ملنی چاہئے۔تحریک انصاف کی حکومت مکافات عمل کا شکار ہوئی۔ اگر اس نے عوامی مسائل کی طرف توجہ دی ہوتی تو آج ان کو مشکل حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب ملک میں نئے انتخابات وقت کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ گزشتہ چند سال سے مہنگائی نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، جب کہ عمران خان کو پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک نظر آتا تھا۔ تحریک انصاف کی سابق حکومت عوام کے دکھوں، تکلیفوں اور مشکلات پر نظر ڈالتی،تواس کو احساس ہوتاکہ لوگ کتنی اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ سابقہ حکمرانوں کی بے حسی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ ماضی میں پانامہ لیکس، پنڈورا پیپرز اور اب سوئس اکاؤنٹس میں ہزاروں پاکستانی منظر عام پر آچکے ہیں، مگر مجال ہے کہ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے ان کیخلاف کسی قسم کا کوئی اقدام کیا ہو۔ ان حکمرانوں کے پاس زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ملک و قوم اب عمران خان اور انکی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کو کچھ ڈلیور نہیں کر سکی۔ جلسے، جلوس جمہوریت کا حسن ہیں مگر خدشہ ہے کہ یہی سرگرمیاں کہیں افراتفری اور انتشار کو ہوا دیتے ہوئے جمہوریت کی بساط کو بھی نہ لپیٹ دیں۔ شہر اقتدار میں عوام کو ایک دوسرے کے مد مقابل لانا کسی بھی طور درست اقدام نہیں تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان خود ہی اپنی حکومت کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔

ملک میں ایک مرتبہ پھر 90کی دہائی والی سیاست کی جارہی تھی۔آئندہ آنے والی حکومت کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔اگر اب بھی سیاستدانوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اب ملک کے اندر نئے انتخابات کرائے جا نے چاہئیں۔ سابقہ حکومت کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں کی بدولت پاکستان اس وقت مکمل طور پر اندرونی خطرات سے دوچار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب سیاسی معاملات کوپارلیمنٹ میں حل کیا جائے۔سٹرکوں پرپاور شو کرنے سے حالات مزید خراب ہونگے۔ ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے اور بیچنے والے دونوں ہی قومی مجرم ہیں۔ جب تک اداروں کو سیاسی معاملات میں دھکیلنے کا سلسلہ بند اور ملک کے اندر آئین و قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی، اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے آئین و قانون کا احترام لازمی ہے۔

رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے اس ماہ مبارک میں بھی مہنگائی میں بھی ہوشر با اضافہ ہوگیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو غریب عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ دونوں اپنے مفادات کی خاطر اقتدار کے حصول کی جنگ لڑرہی ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے سب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ پاکستانی عوام پارٹیاں، نعرے اور چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آنیوالوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فارما ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ادویات کی قیمتوں میں 20فیصد تک اضافہ کرنے کی دھمکی تشویشناک ہےجبکہ غریب عوام پہلےہی 4سو فیصد تک مہنگی ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان مکمل طور پرآئی ایم ایف کی گرفت میں آ چکا ہے۔