نیا معاشی معاہدہ

April 06, 2022

ذیشان ہاشم نے اپنی کتاب ’’غربت اور غلامی خاتمہ کیسے ہو‘‘ میں پاکستان کے دیرینہ معاشی معاملات پر سیر حاصل بحث کی ہے، وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ پاکستان میں 20کروڑ عوام جغرافیائی طور پر منتشر ہیں۔ شہر،قصبات، دیہات اور علیحدہ علیحدہ گھروں کی صورت میں یہ مقیم ہیں۔ ان کی ضروریات اور خواہشات بھی وقت کے ساتھ ساتھ لچکدار ہیں ،ان کے معاشی فیصلوں میں بھی تنوع، ارتقاء، تبدیلی اور انفرادیت ہے۔

ایک فرد اگر ایک گھر کا سربراہ ہے یا خود اپنی ذات کا منیجر ہے تب بھی اسے خود بھی نہیں پتا کہ ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی ضروریات و خواہشات کی کیا نوعیت ہو گی۔’’ تحریک عدم اعتماد کو ایک سپیکر کی رولنگ سے ختم کردینے جیسے غیر آئینی اقدام کے نتیجہ میں بھی مستقل فراغت کو روکا نہیں جا سکتا، اس لیے یہ تو طے ہے کہ انتخابات کا انعقاد فوری طور پر ہو جائے یا اس میں ایک دو ماہ کی مزید تاخیر ہو مگر نئی حکومت کو ایک ایسے معاشرے میں معیشت کی ان بنیادوں کو ازسرِنو استوار کرنا ہوگا جہاں پر معاشی معاملات میں جگہ جگہ پر مختلف مسائل کا سامنا کرنا ایک حقیقت ہے تاہم اس سب سے قبل اس بات کا جائزہ لینا از حد اہمیت کا حامل ہے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ جس کے سبب اتنی چاؤ سے لائی گئی حکومت کے سر سے ’’شفقت ‘‘ کا ہاتھ اٹھا کر غیر جانبداری کا رویہ اختیار کرلیا گیا جو بالکل درست فیصلہ اور کسی فریق کی فتح شکست کی بجائے صرف پاکستان کی فتح ہے۔

اس ’’ شفقت‘‘ سے محرومی کی صرف ایک ہی وجہ ذہن میں آتی ہے کہ ملک کی روز بروز گرتی معیشت میں مقتدر حلقوں، جہاں پر خود بھی اعلیٰ فورم پر ریٹائرمنٹس کے سبب سے تبدیلی آ چکی تھی، میں یہ احساس پختہ ہوگیا کہ ملک کے معاشی معاملات اگراسی نہج پر آگے بڑھتے چلے گئے تو ایسی صورت میں خاکم بہ دہن وطن عزیز کو کسی بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ایسے کسی حادثے سے بچنے کے لیے سیاسی معاملات میں الجھنے سے بچا جائے۔ معاشی بدحالی جس سے عوام بدحال ہو رہے ہیں، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی بحث کرنے کی جگہ صرف 2013سے لے کر 2017 اور 2018تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا چارٹ بنا لیا جائے اور پھر 2018 سے لے کر اب تک کی قیمتیں سامنے رکھ لی جائیں۔ ذرائع آمدن کو دیکھ لیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ عوام ان چار برسوں میں زبردست طور پر مہنگائی سے متاثر ہوئے جبکہ اس سے قبل ایسی مہنگائی کا سامنا 70 برسوں میں نہیں کیا گیا ۔

سابقہ سوویت یونین کے سربراہ گورباچوف انگلینڈ کی خوشحالی دیکھ کر اس بات پر بہت حیران تھے کہ برطانوی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کو کیسے علم ہوتا ہے کہ تمام برطانوی شہری اچھی خوراک استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہی سوال مارگریٹ تھیچر سے پوچھا تو مارگریٹ تھیچر نے وہ جواب دیا جو ہر حکمران کے لیے عوام کے معیارِ زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک زبردست راستہ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں کچھ نہیں جانتی بلکہ قیمتیں سب بتا دیتی ہیں۔ اس وقت بھی قیمتیں سب حالات بیان کر رہی ہیں اور اس کے بعد بھی بیان کریں گی۔ اسی طرح قومی سلامتی سے جڑے اخراجات بھی بہت بری طرح اس معاشی بدحالی سے متاثر ہوئے جو ہر جگہ پر ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کون سا راستہ اختیار کیا جائے کہ کم ازکم ہماری کرنسی بنگلہ دیش کے مقابلے میں تو توانا ہو سکے۔ تو خیال اس آئیڈیا کی جانب مڑ جاتا ہے کہ جس کو نواز شریف نے پیش کیا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھ جائیں اور پاکستان کی معاشی ترقی کی غرض سے کم از کم 25سالہ منصوبہ مشترکہ طور پر تیار کر لیں کہ حکومت بھلے ہی آئے اور جائے مگر ان رہنما اصولوں کے مطابق ہی ملکی معاشی فیصلے کیے جائیں گے۔ خیال رہے کہ معیشت کبھی نہیں پنپ سکتی جب تک کہ مضبوط سیاسی نظام جو ہر قسم کی غیر آئینی مداخلت سے پاک ہو قائم نہ ہو جائے اور اس کے لیے دوسرا ستون امن و امان کی بہترین صورتحال ہے ۔ عمومی جرائم کی بیخ کنی سے لے کر دہشت گرد اور دہشت گرد عناصر کی حمایت میں چلتی زبانوں کو کنٹرول کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ان میں سے اگرکسی ایک معاملے میں بھی کسی نے صرف اپنی مرضی برتی تو وہ ستون ہی نہیں پوری عمارت دھڑام سے گر پڑے گی۔ مضبوط معیشت کا خواب بکھر جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)