بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

April 14, 2022

وہ ا قتدار سے نکل چکا تھا وہ کسی بھی جلسے یا ریلی میں خود شریک نہیں ہو اصرف ایک کال دی کہ آج پر امن طور پر شہری باہر نکلیں اور امپورٹڈ حکومت کے خلاف پرامن ا حتجاج کریں بس پھر کیا تھا، راولپنڈی میں لال حویلی سے لے کر اسلام آباد کے ایف نائن پارک تک، راول پنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر انسانی سروں کا ایک لامتناہی سمندر تھا، لاہور میں لبرٹی تھا توکراچی میں بھی انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر، ملک کا کوئی شہر اور دیہی علاقہ ا یسا نہیں تھا جہاں رات گئے تک لوگ گھروں سے باہر نکل کر سراپا احتجاج نہ ہوئے ہوں۔ اگرچہ الیکٹرونک میڈیا پر عوام کی نگاہوں کو ایسے مناظر کی’ تراوت‘ سے دور رکھا گیا لیکن سوشل میڈیا پر تو لائیو سب کچھ دیکھا اور شیئر کیا گیا۔ انسانی سمندر کی تصاویر چند ہی لمحوں میں ساری دنیا میں وائرل ہوگئیں۔ یہی نہیں بلکہ لندن میں عدالت کو مطلوب سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے گھر کے باہر انکے حق اور مخالفت میں بھی مطاہرین جمع ہوئے اور دنیا کے کئی ایک ممالک میں دیار غیر میں مقیم پاکستانی عمران خان کے حق میں ریلیوں کی شکل میں نکل آئے۔ ابھی چند ہی دن پہلے کی بات ہے۔ کراچی سے بلاول مارچ لیکر آئے لاہور سے مریم نواز’ جلسی‘ لیکر اسلام آباد آئیں، خود مرکزی رہنماآئے لیکن کروڑوں روپے ضائع کرکے بھی ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ عمران خان نے ایک دھیلہ بھی پلے سے نہیں لگایا اور لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لاکر یہ پیغام دیا کہ’ یہ ہوتی ہے عوامی طاقت‘۔ ایسا منظر اس وقت دیکھا گیا تھا جب بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے وطن واپس آئی تھیں یا پھر ضیاءالحق کے جنازے میں اس قدر بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے تھے، بھٹو بھی لاکھوں کا مجمع لگاتے تھے۔ اب کئی دہائیوں کے بعد ملک کو ملنے والے حقیقی لیڈر نےایسا کر دکھایاہےگزشتہ روز شہباز شریف جنہیں اپوزیشن امپورٹڈ حکومت کا وزیر اعظم کہتی ہے، سے ایوانِ صدر میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ ملک کے 23ویں وزیر اعظم کے طور پر میاں شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں کچھ خاص لوگ آئے کچھ نہیں آئے۔

قبل ازیں قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں نے تو دھمکی والا خط نہیں دیکھا جو اس ایوا ن میں لہرایا گیا، پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں مسلح افواج کے سربراہان اور ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں خط کے معاملے پر ان کیمرہ بریفنگ دی جائے، اگر اس معاملے میں ہمارے ملوث ہونے کے ثبوت کا شائبہ تک ملا تو سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں گا، یہ اور بات ہے کہ وہ پہلے بھی ایسے کئی دعوے کرچکے ہیں کبھی نام بدلنے کا اور کبھی کوئی اور لیکن ایسا ویسا کچھ نہیں کیا، الفاظ کا کیا ہے ہو امیں تحلیل ہوجاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ہمارے تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں، ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل تک خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا، جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیڈ لاک کی بجائے” ڈائیلاگ“ اور مخاصمت کی بجائے ”مفاہمت “سے کام لینا پڑے گا۔ یہ اچھا کہا کہ ڈائیلاگ اور مفاہمت، دونوں الفاظ اچھے ہیں لیکن عمل کا جامہ چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا موصوف پہل فرمائیں گے او ر خودچل کر عمران خان کے پاس مفاہمت کیلئے جائیں گے، ڈائیلاگ میں پہل کریں گے، مخاصمت کی بجائے مفاہمت کریں گے تو کس بنیاد پر، جبکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک’ کامیاب‘ ہوئی حق کی فتح ہوئی اور” باطل“ کو شکست ہوئی۔ آج کا دن پوری قوم کے لیے عظیم دن ہے کہ اس ایوان نے ”جھرلو“ کی پیداوار وزیراعظم کو آئین اور قانون کے ذریعے اپنے گھر کا راستہ دکھایا۔اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ آج روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں بڑھی ہے۔ ڈالر آٹھ روپے نیچےآ گیا ہے۔ جب خود کو حق اور عمران خان کو باطل کہہ کر طبل جنگ بجادیا تو پھر لگتا ہےمفاہمت نہیں بلکہ مخاصمت ہی کہ چلے گی۔ ایک اچھی بات بھی کی، اعلان کیا کہ پنشنرز کو فوری ریلیف دینے کے لیے سول اور آرمی کے پنشنرز کی پنشن میں یکم اپریل سے دس فیصد اضافہ کیا جائے گا اور نجی شعبہ بھی ایک لاکھ تک تنخواہ وصول کرنے والے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرے۔ بطور” خادم پاکستان“ چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر چلوں گا اور پورے ملک کو یکساں ترقی کے راستے پر ڈالیں گے۔

کیا طرفہ تماشہ ہے کہ نومنتخب وزیر اعظم جن کے کندھے پر سولہ ارب کی مبینہ منی لانڈرنگ کے الزام کا بوجھ ہے، ان پر قوم کی اما مت و قیادت کا مزید بوجھ لاددیا گیا ہے جس صبح احتساب عدالت میں ملزم پر فرد جرم لگنی تھی اسی رات وزارت عظمیٰ کی مہربھی لگوالی۔ واہ ری قسمت ستر سال کی عمر میں نصیب جاگ اٹھا۔ اسے کہتے ہیں مقدر کا سکندر، ایک بات ماننے والی ہے کہ موصوف قسمت کے دھنی ہیں اور ایک بہت اچھے منتظم بھی ہیں مہنگائی مصنوعی ہو یا اصلی واپس لا بھی چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر پنجاب میں اور اب عزم بھی یہی ہے کہ پورے ملک میں مہنگائی کی شرح نیچے لائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)