معاشی بدحالی۔ نئی حکومت سے توقعات

April 18, 2022

نئی حکومت آنے سے قبل ملک میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے، ملک معاشی بحران کی جانب بڑھ رہا تھا اور پاکستانی روپے کی قیمت کم ترین سطح پر آگئی تھی جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہورہے تھے۔ ریکوڈک منصوبے کے تصفیہ کی مد میں بھاری ادائیگی کے بعد زرِمبادلہ کے ذخائر میں 700ملین ڈالر اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں 720 ملین ڈالر سے زائد کی کمی ہوئی۔ اگست 2021ء میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 20.07ارب ڈالر تھے جو 25 مارچ 2022ء کو کم ہوکر 12.04ارب ڈالر رہ گئے تھے یعنی صرف 9ماہ میں 8ارب ڈالر سے زائد کی کمی واقع ہوئی۔ IMF پروگرام کی بحالی تک پاکستان کو کم از کم 5ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے تاکہ 30جون 2022ء تک ادائیگیوں کے بحران سے بچاجاسکے۔

ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کی ایک وجہ چین کے 2.4ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی ہے۔ وزارت اقتصادی امور کے مطابق جون 2022ء تک پاکستان کو 12.4ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگیاں کرنا تھیں جن میں 10.4ارب ڈالر اصل اور 2ارب ڈالر سود شامل ہے جس میں سے جولائی سے مارچ کے دوران 9مہینوں میں 10ارب ڈالر کے قرضے ادا کئے جاچکے ہیں جب کہ جون 2022ء تک مزید 2.4ارب ڈالر کی ادائیگی باقی ہے۔گزشتہ دنوں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر سے کراچی میں ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ حکومت پاکستان نے چین سے 2.4ارب ڈالر کے قرضے مزید ایک سال کے لیے رول بیک کرنے کی درخواست کی ہے۔ سیاسی صورتحال کے باعث صرف مارچ کے مہینے میں PSX سے تقریباً 400ملین ڈالر کا اخراج ہوا جبکہ رواں مالی سال اسٹاک مارکیٹ اور بانڈز میں کی گئی سرمایہ کاری سے 1.5ارب ڈالر نکالے جاچکے ہیں۔ پاکستانی سکوک بانڈز عالمی بانڈز مارکیٹ میں 100ڈالر سے گرکر 68ڈالر پر آگئے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے ہنگامی اقدامات کیے ہیں اور پالیسی ریٹ میںایک ساتھ 2.5فیصد اضافہ کر دیا ہے جس سے پالیسی ریٹ 9.75فیصد سے بڑھ کر 12.25فیصد ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ایکسپورٹرز کے ری فنانس ریٹ بھی 3فیصد سے بڑھاکر 5.5فیصد کردیئے گئے ہیں جس سے ایکسپورٹرز کی مالی لاگت میں اضافہ ہوگا۔

گزشتہ 9مہینوں جولائی سے مارچ کے دوران ملکی امپورٹس 49فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 58.7ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ملکی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے 177امپورٹڈ لگژری آئٹمز پر 100فیصد کیش مارجن عائد کیا ہے کیونکہ موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف 2 مہینے کے لیے کافی ہیں اور ان میں مزید کمی سے معاشی بحران مزید بڑھے گا اور پاکستان خدانخواستہ سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اندرونی اور بیرونی عوامل کے باعث ملکی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے اور ملکی فارن ایکسچینج کی صورتحال اور مالیاتی نظام کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کیا ہے تاہم نئی حکومت آنے کے بعد ڈالر 190سے کم ہوکر 182روپے کی سطح پر آگیا جبکہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ڈپازٹس بڑھ کر 4ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور میرے دوست ملک بوستان نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے تجویز دی کہ نئی حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرنا ہوگا جس کے لیے حکومت کو عمران خان کی اعلان کردہ انڈسٹریل ایمنسٹی اور پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر عائد پابندی کو ختم کرنا ہوگا جس پر آئی ایم ایف نے اعتراض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ملک آئینی بحران سے نکل گیا ہے۔ نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی مفاد میں اپنی توجہ سیاسی امورکے بجائے معیشت پر مرکوز کرے کیونکہ گزشتہ تین چار مہینے سے ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا قائم رہی جس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں غیر جانبدارانہ اور دوستانہ بنانا ہوگا۔ امریکہ اور یورپی ممالک ہمارے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں لہٰذاہمیں ان ممالک سے بہتر تعلقات بناکر آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اورجی ایس پی پلس جیسے اہم مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ گزشتہ حکومت نے سی پیک منصوبوں کو وہ ترجیح نہیں دی جو اس سے پہلے حکومتوں نے دی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت صرف دو مہینے کی امپورٹ کیلئے زرمبادلہ، 45ارب ڈالر کا تجارتی اور20ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ، 13 فیصد افراط زر، 60ارب روپے ماہانہ پیٹرول سبسڈی اور 5روپے بجلی کے نرخوں میں کمی سے 75ارب روپے ماہانہ گردشی قرضوں میں اضافہ، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کا سالانہ 692ارب روپے کا خسارہ ،5000 ارب روپے سے زائد کا بجٹ خسارہ اور مہنگائی نئی حکومت کے لیے ورثے میں چھوڑ کر گئی ہے لیکن عوام کی توقعات (ن) لیگ حکومت سے وابستہ ہیں۔ میں شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے اپنے دیرینہ تعلقات استعمال کرکے ملک میں سرمایہ کاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ شخصیات غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن قومیں نہیں کیونکہ قوموں کے غلط فیصلے آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)