عمران خان کی خارجہ پالیسی

April 24, 2022

پاکستان تحریک انصاف کی ایک ایم پی اے نے پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور مارکٹائی کے واقعے کے بعد فون کیا اور غصیلے لہجے میں بولیں، اِس ملک سے اخلاقیات اور انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہے، ہمارے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے اور میں نے بیرونِ ملک زیر تعلیم اپنے بچوں سے کہا ہے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا، آپ پڑھائی کے بعد وہیں سیٹل ہو جانا۔ میں نے جواباً کہا، آپ امریکہ میں زیر تعلیم اپنے بچوں کو اُس ملک میں مستقل رہائش پذیر ہونے کا مشورہ دے رہی ہیں جس نے آپ کے اور آپ کے لیڈر عمران خان کے بقول ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی۔ ایک طرف آپ امریکہ سیٹل کر کے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا رہی ہیں، دوسری طرف آپ سب کا موقف یہ ہے کہ ہمیں امریکہ اور مغرب کی غلامی قبول نہیں، ایسی غلامی سے موت بہتر ہے۔پاکستان سے ہر سال ہزاروں بچے بچیاں امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے ہیں جہاں بعد از پڑھائی اچھی جابز ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ آئی ٹی ایکسپرٹ اور ڈاکٹرز سینکڑوں کی تعداد میں ہر سال H-1اور میچنگ وغیرہ کے ذریعے ان کے سسٹم میں داخل ہوتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے بیوی بچے اور رشتے دار بڑی تعداد میں امیگرنٹ ویزوں پر امریکہ، برطانیہ وغیرہ جاتے ہیں اور ان ملکوں سے کبھی آواز نہیں اٹھی کہ یہ ہمارے وسائل پر قابض ہو رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دونوں بیٹے بھی اپنی برطانوی والدہ کے پاس برطانیہ میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی جو بڑی محنت سے بیرون ملک کام کرتے ہیں اور وہاں کے سسٹم کی تمام سہولیات سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کو چاہیے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کی اقتدار کی لڑائی میں حصہ دار نہ بنیں بلکہ ان ممالک جہاں وہ سکونت پذیر ہیں، کی مقامی سیاست اور سماجی سرگرمیوں میں فعال ہوں اس طرح وہ نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ اپنے آبائی وطن کی بھی بہتر انداز سے خدمت کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں دنیا بھر سے آئے تارکینِ وطن اپنا نیشنل ڈے یکجا ہو کر دھوم دھام سے مناتے ہیں جبکہ اوورسیز پاکستانی سیاسی تفریق کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے نظر آتے ہیں۔ لندن میں اکثر متحارب سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے کے گھروں کے سامنے شور و غل اور دنگا فساد کر رہے ہوتے ہیں اور بیرون ملک جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں، ایسے کاموں کے لیے برٹش گورنمنٹ نے ہائیڈ پارک میں جگہ مخصوص کی ہوئی ہے جہاں کوئی بھی شخص کھل کر آزادی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ ان سے ملک کے لیے لابنگ کا کام لیں اور ہماری حکومتوں کو بھی چاہیے کہ اپنی خارجہ پالیسی ذاتی پسند نا پسند کے بجائے حقیقت پسندانہ خطوط پر تشکیل دیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو کچھ زیادہ مثبت کارکردگی نظر نہیں آتی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جن کی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی شدید خواہش تھی، وزیر خارجہ بن کر ملتان کی سیاست سے ہی باہر نہیں نکل پائے۔ مخدوم صاحب کی صلاحیتیں اور کارکردگی اچھی انگریزی اور اعلیٰ ملبوسات تک محدود رہی اور عالمی سفارتکاری میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ اپنے دور حکومت کی ابتدا میں وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اس کے داماد کے توسط سے اچھے تعلقات قائم کیے تاہم ڈیمو کریٹک جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے جس کی وجوہات میں واشنگٹن میں موثر لابنگ کا نہ ہونا اور حکومت پاکستان کی افغان پالیسی وغیرہ شامل ہو سکتی ہیں۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے واشنگٹن سے آئے انتہائی خفیہ مراسلے کو اوپن کرنا بھی دنیا بھر کے سفارتی حلقوں میں تضحیک کا باعث بنا اور بیرونی دنیا خصوصاً مغربی ممالک میں پاکستان کا امیج خراب ہوا۔ عمران خان کے دور حکومت میں سفارتی ناپختگی کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب وزیراعظم نے دوست اور محسن ملک سعودی عرب کو OICکے متبادل اسلامک بلاک بنانے کے لیے ملائیشیا اور ترکی کی حمایت کا اعلان کر کے ناراض کیا۔ ہمارا دوست ملک چین بھی سی پیک میں پاکستان کی عدم دلچسپی اور بعض وزراء کے بیانات پر ہم سے نالاں رہا تاہم ہماری دفاعی ضروریات پوری کرنے میں چین نے ہر ممکن تعاون کیا۔ پاکستان کو سفارتی دنیا میں تنہا کرنے کا آخری اقدام روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے کے دوران وزیراعظم عمران خان کا دورہ ماسکو تھا، جس کی بعد ازاں انہوں نے یہ توجیہہ پیش کی کہ یہ دورہ سستے تیل، گیس اور گندم کے حصول کے لیے تھا۔

(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)