عید کی خوشی

May 02, 2022

عید وہ خوشی ہے جو بار بار لوٹ کر آتی ہے۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے عید کپڑوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ بچوں کی عید کپڑوں سے ہوتی ہے اور بڑوں کی عید اپنوں سے ہوتی ہے۔ ہمارے بچپن میں عید واقعی عید ہوا کرتی تھی۔ نیا سوٹ صرف عید کے موقع پر ملتا تھا۔ نئےبوٹ یاسینڈل بھی عید پر ہی ملا کرتا تھے۔

سال کے سال ملا کرتی تھی پوشاک نئی

ہم پہن کر جسے اتراتے پھرا کرتے تھے

اب صورت حال ذرا مختلف ہے۔ بچےسال بھر نئے ملبوسات اور نئے جوتے خریدتے ہیں۔ اس لیے انہیں پتا ہی نہیں چلتاکہ عید کی خوشی کیا ہے؟ ہم اپنے بچپن میں بہت سی چیزیں صرف عید پر کھایا کرتے تھے۔ عید کا صرف اس لیے شدت سے انتظار کیا کرتے تھے کہ عیدی ملے گی تو فلاں چیز خود خرید کر کھائیں گے۔ آج ہمارے بچے سال بھر نئی سے نئی چیز کھاتے رہتے ہیں۔ انہیں اپنی من پسند چیز کھانے کے لیے کسی عید کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ ان کے لیے ہر روز عید کا سماں رہتا ہے۔ میری بات کا لب لباب یہ ہے کہ چیزوں کی فراوانی نے عید کی خوشی کچھ کم کر دی ہے۔ ہم اپنےبچپن میں عیدی کے پیسے جمع کرکے سینما میں فلم دیکھنے جایا کرتے تھے۔ فلم کی کہانی سمجھ میں آتی یا نہ آتی، کم از کم تین گھنٹے ائرکنڈیشنڈ ہال میں تو گزار ہی لیا کرتے تھے۔ تب اے سی کی عیاشی کسی کسی کو میسر تھی۔ عام لوگ اے سی میں بیٹھنے کا شوق سینما جا کر پورا کرلیا کرتے تھے۔ تب ہر سینما میں عید کے موقع پر نئی فلم دکھائی جاتی تھی۔ پوسٹر پر آج شب کو کے الفاظ ’’آجشبکو‘‘کی شکل میں لکھے جاتے تھے۔ تب ان الفاظ کا مطلب ہمیں کبھی معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ فلم کے کچھ اشتہاروں پر ’’صرف بالغوں کے لیے‘‘ کے الفاظ جلی حروف میں لکھے ہوتے تھے۔ ایسی فلمیں عام طور پر ان سینمائوں میں دکھائی جاتی تھیں جو اپنی عمر پوری کر چکے تھے۔ در و دیوار سے خستگی ٹپکتی تھی۔ بقول حزیں صدیقی :

اب تو یہ خستگی کا عالم ہے

اب گری جیسے اب گری دیوار

لطف کی بات یہ ہے ان سینمائوں میں آنے والے بیش تر تماش بین وہ ہوتے تھے جو بلوغت کی آخری حدیں پار کر چکے تھے۔ یہ وہ پہلوان تھے جو کشتی لڑنے کے قابل نہیں رہے تھے، اس لیے کشتی دیکھ کر گزارا کرتے تھے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کی ایجاد نے عید کی یہ خوشی بھی غارت کردی ہے۔ اب لوگ اپنے موبائل پر اچھی سے اچھی مہنگی سے مہنگی فلم گھر بیٹھے ہی دیکھ لیتے ہیں۔ اے سی گھروں میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ سینما گھر میں جاکر فلم دیکھیں؟ لاہور کی سینما مارکیٹ ایبٹ روڈ کے بیش تر سینمائوں میں اب کاروں کی ورک شاپس کھل چکی ہیں۔ کچھ سینمائوں کو پارکنگ پلازوں میں بدل دیا گیا ہے۔ مجبوراً ہفتے بھر کے لیے کوئی فلم بھی چلا دی جاتی ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری دم توڑ چکی ہے۔ نئی فلمیں بنتی نہیں اور سینمائوں کو گرانے کی اجازت نہیں۔ بہرحال سچ یہی ہے کہ جلد یا بدیر حکومت ان سینمائوں کو گرا کر پلازے بنانے کی اجازت دے دے گی اور ہماری یہ ثقافتی نشانی بھی مٹ جائے گی۔

یہ بات صد فیصد درست ہے کہ عیداپنوں میں ہوتی ہے۔ اپنوں سے دور گزری ہوئی عید کیسی ہوتی ہے؟ یہ ان سے پوچھئے جو رزقِ حلال کمانے کے لیے برسوں اپنوں سے دور رہتے ہیں یا جن کے اپنے رزق خاک ہو چکے ہیں۔سوشل میڈیا کے زمانے میں ہم سب ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ملاقاتیں فیس بک اور واٹس ایپ پر ہوتی ہیں لیکن ہر سال عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ میل ملاپ اور میل جول بھی کبھی ہماری زندگی کا حصہ ہوا کرتاتھا۔ گواہی کے لیے پاکستانی فلم ’’انگارے‘‘ دیکھ لیجئے جس میں ہمارے ایک البیلے شاعر کلیم عثمانی کا لکھا ہوا یہ گیت بھی شامل ہے:

عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملیے

رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی

اپنوں سے ملنے کی یہ روش الحمدللہ آج بھی برقرار ہے۔ عید تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی، سوشل میڈیا کی کارروائیوں کو معطل کردیتی ہے، لوگ گلے ملتے ہیں۔ مصافحہ کرتے ہیں۔ پچھلے دو برسوں میں کورونا نے معانقے اور مصافحے کی روایت ہی توڑ ڈالی تھی۔ صد شکر کہ عید کورونا کے اندیشوں سے آزاد ہو چکی ہے۔ ہم عام لوگوں کی عید تو عید کا چاند نظر آنے کے بعد شروع ہوتی ہےلیکن ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والوں کی عید رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آخری دنوں ہی میں شروع ہو جاتی ہے۔ وہ اپنوں سے عید ملنے کے لیے اپنے اپنے آبائی شہروں کی طرف جانیوالوں سے زبردستی ’’عیدی‘‘ وصول کرتے ہیں۔ ہمارے ٹرانسپورٹر بھائی رزق حلال میں حرام کی پیوند کاری اس خوش اسلوبی سے کرتے ہیں کہ ان پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے بھی اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔

لوگ کہتےہیں کہ اب عید ویسی خوشی نہیں لاتی جیسے ماضی میں اس سے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خوشی آپ کو باہر سے نہیں ملتی یہ آپ کے اندر کہیں موجود ہوتی ہے۔ آپ اگر اپنے عمل سے مطمئن ہیں، قناعت پسند ہیں یعنی جو ملا ہے اسی پر خوش ہیں تو آپ کی خوشی کو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔