پیٹرول، ڈالر اور قربانی کے بکرے

May 17, 2022

اِس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔خلاص!اِس سے آگے کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔کسی کو اگر زرا سا بھی شک یا تشویش ہے تو سری لنکا زیادہ دور نہیں ہے، وہاں اُس کی معیشت کا جائزہ لے لیں۔ روپےکے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی ہے۔ اِن دو اشاریوں سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ کاروں کا ہماری معیشت اور کرنسی پر اعتماد کس حد تک ہے۔

معیشت کی طویل تفصیلات میں جانے کی بجائے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم نہ صرف دیوالیہ ہو سکتے ہیں بلکہ ہر گزرتے دِن کیساتھ یہ خدشہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان اگر دیوالیہ پن کی طرف جاتا ہے تو اِس سے روپے کی قدر شدید کم ہو گی، مہنگائی عروج کو پہنچے گی اور اِنتشار شاید ہمارے سب سے چھوٹے مسائل میں سے ایک ہو۔ اِس دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بہت مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ مشکل فیصلے نہیں ہوں گے تب تک اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار رہے گی، روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو گی اور ہماری معیشت مستحکم نہیں ہو گی۔

اِن مشکل فیصلوں میں سب سے بڑا فیصلہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے کا ہے۔ اِس وقت حکومت فی لیٹر پیٹرول پر 45.1روپے سبسڈی دے رہی ہے۔ ہمارا ملک جس کے حکومتی اخراجات بھی قرض لے کر پورے کیے جاتے ہیں، ایسی سبسڈی دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اِسی وجہ سے ہم آئی ایم ایف پروگرام سے باہر ہوئے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ناگزیر ہے۔ اِس پروگرام میں شامل ہونے سے ملک کو آئی ایم ایف کیساتھ ساتھ دیگر عالمی اداروں اور ملکوں سے بھی پیسے ملتے ہیں۔ اِس پروگرام میں شامل ہونے سے دنیا کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ آپ اپنی معیشت کو مسائل کو سنجیدگی سے ٹھیک کر رہے ہیں۔

پیٹرول پر ملنے والی سبسڈی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ یہ امیر اور غریب کو برابر مل رہی ہے۔ ایک لینڈ کروزر کا مالک صرف ایک دفعہ اپنی گاڑی کا ٹینک فُل کروانے پر حکومت سے 4200روپے کی سبسڈی لیتا ہے۔ پیٹرول پر کبھی سیاست ہونی ہی نہیں چاہیے تھی لیکن یہ کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اُنہوں نے پیٹرول پر سیاست کی اور جب اُن کی حکومت جا رہی تھی تو اُنہوں نے پیٹرول پر سبسڈی دے کر اور پاکستان کو آئی ایم پروگرام سے نکال کر معیشت کو نقصان پہنچایا۔ متحدہ اپوزیشن کے حکومت میں آنے سے تو ملک پر کوئی ایٹم بمب نہیں گِرا لیکن عمران خان کے اِس فیصلے سے یقیناً پاکستانی معیشت پر ایٹم بمب گِرا تھا۔خان صاحب پیٹرول کی قیمت کے حوالے سے عوام کی غلط رہنمائی کرتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے دورِ حکومت میں مَیں اُن کی پیٹرول کی قیمت کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا کیونکہ اُنہوں نے ہی یہ معیار طے کیا تھا کہ حکومت منی لانڈرنگ روکے اور ٹیکس نیٹ بڑھائے، پھر اُسی پیسے سے پیٹرول سستا رکھے۔ اِس حوالے سے نئی آنے والی حکومت نے اپنی پویزشن یوں خراب کی کہ وہ اقتدار میں آتے ساتھ ہی عوام کو اِن معاشی مسائل سے آگاہ کرنے اور آئی ایم ایف کیساتھ پیٹرول کے سلسلے میں نیا بیانیہ بنانے کی بجائے فرح خان، گھڑی، توشہ خانے اور ہیلی کاپٹر وغیرہ کے پیچھے لگ گئی ۔

ایسے مشکل فیصلے کرنا یقیناً آسان نہیں جبکہ ایسے فیصلوں کی بہت بڑی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑ سکتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں اُس ایک سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہےکہ اگر ملکی معیشت اِس قدر خراب تھی اور حکومت میں آ کر اِتنے مشکل فیصلے کرنے تھے تو خان صاحب کو گھر بھیج کر حکومت کیوں لی گئی؟ اِس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ خان صاحب اُس وقت کی اپوزیشن اور میڈیا دونوں کو ہی آئوٹ کرنے کا پروگرام بنا بیٹھے تھے۔ یہ پروگرام پیکا آرڈی نینس میں ترامیم سے عمران حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو جیل میں ڈالنا اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کیخلاف سخت کریک ڈائون کر کے اہم تقرریوں کے ذریعے اپنے 10سالہ اقتدار کو یقینی بنانا تھا۔اِسی منصوبے کو روکنے کیلئے پی ڈی ایم نے یہ مصیبت اپنے گلے ڈالی۔

اب اگر یہ مصیبت گلے ڈال ہی لی گئی ہے تو حکومت مشکل فیصلے کیوں نہیں کرتی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ حکومت کو خان صاحب کا بھی پریشر ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی کہ وہ اِن مشکل فیصلوں میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی یا نہیں۔شہباز شریف اوراُن کی حکومت اگر فی الوقت یہ مشکل فیصلے کرکے عوام کی گالیاں کھا بھی لیتی ہے تو اُنہیں اِس کے ازالے اور ملک میں امن قائم رکھنے کیلئے کچھ وقت ضرور چاہیے ہوگا۔ اگر خان صاحب کے دھرنے کے دوران پیٹرول کی قیمت 250روپے فی لیٹر ہو جاتی ہے تو عوام خان صاحب کیساتھ نہ بھی سہی لیکن پیٹرول کی قیمت کیخلاف ضرور سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ فرانس میں پیلی واسکٹوں والا احتجاج پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے اور مہنگائی میں اضافے کیخلاف ہی کیا گیاتھا جس سے ملک میں کافی انتشار پھیلا تھا۔ فرانس جیسے امیر ملک میں پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر اگر احتجاج ہو سکتا ہے تو پاکستان کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اِس لیے اگر ریاستی ادارے ملک و قوم کے مشکل لیکن حقیقی وسیع تر مفاد میں لیے گئے مشکل فیصلوں میں حکومت کیساتھ کھڑے نہیں ہوتے تو شہباز شریف کو یہ مصیبت اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ہے؟اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن اگر وہ پیٹرول کی قیمت میں بھی اضافہ کردیتے ہیں تو اُنہیں عوام کی طرف سے شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن اگر یہی روش اپنائی جاتی ہے تو ملک کا کیا ہو گا؟

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو آئی ایم ایف 3ماہ کی نگران حکومت کی ساتھ بات چیت کر کے پروگرام بحال نہیں کرے گا جس کی وجہ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا،اِس کی بجائےآئی ایم ایف نئی منتخب حکومت سے ہی بات چیت کرے گا ، جس کے پاس اصلاحات کرنے کیلئے بھرپور وقت اور مینڈیٹ دونوں دستیاب ہوں گے۔تو یہ سوچ بھی غلط ہے کہ یہ مشکل فیصلے نگران حکومت سے کروائے جائیں کیونکہ کوئی بھی سیاست جماعت اِس کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو کسی بھی سیاسی کیا غیر سیاسی قوتوں کیلئے بھی ملکی معیشت کو مستحکم کرنا مشکل ہوگا۔

اِس لیے اگر ملک اور ملکی معیشت کو بچانا ہے تو جلد سے جلد یہ مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ اِن مشکل فیصلوں کی سیاسی قیمت چکا کر قربانی تو دینا ہوگی۔اگر اِس مخلوط حکومت کی سیاسی جماعتیں یہ مشکل فیصلے کرکے اپنی سیاسی مقبولیت کی کچھ قربانی دینے کیلئے تیار ہیں تو اُنہیں مکمل قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے اُن کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)