لوڈشیڈنگ اور امتحانی مراکز

May 20, 2022

چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ملک کے طول و عرض میں دن رات جاری لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو ایک بار پھر گزشتہ بحران جیسے دور میں دھکیل دیا ہے۔ شہروں میں 12اور دیہات میں 16گھنٹے سے زیادہ بجلی کی بندش نے نہ صرف شدید گرمی کے ستائے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ سندھ اور پنجاب میں امتحانات دینے والے طلباء و طالبات بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ امتحانی مراکز میں جنریٹروں کا استعمال یقینی بناکر اِس مسئلے کو لازماً حل کیا جانا چاہیے۔ موسم گرما میں ہر سال بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے، اس کے باوجود پہلے سے انتظامات نہ کرنا متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک ماہ قبل وزیر کے نوٹس لیے جانے پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ ملک میں بجلی پیدا کرنے کے کئی پلانٹ بند پڑے ہیں جنھیں فوری فعال کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم حالیہ لوڈ شیڈنگ کے پیچھے گردشی قرضوں اور ان کے باعث جنم لینے والے تیل کے ذخیرے میں کمی کا بھی دخل ہے کہ اس وقت بجلی کی 57فیصد ضرورت تیل ہی سے پوری کرنی پڑرہی ہے۔ ملک میں تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش محض 30دن کی ہے جبکہ بھارت 120دن کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس پانی کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے سورج اور کوئلے سمیت اور بھی ذرائع موجود ہیں جن سے نہ صرف کثیر مقدار میں بلکہ تیل کے مقابلے میں کئی گنا سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے دریاؤں اور ڈیموں میں پانی کی کمی کے باعث محض 27فیصد ہائیڈل بجلی حاصل ہورہی ہے البتہ آئندہ مون سون میں بہتری کی امید ہے۔ منگلا، تربیلا اور نیلم جہلم منصوبوں کے بعد دیامر بھاشا ڈیم، داسو پاور پراجیکٹ اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے 9750میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی جن کی تکمیل میں سات سال باقی ہیں۔ تاہم بجلی کی طلب و رسد میں فوری توازن لانا بہرحال ضروری اور حکومت وقت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔