سانپ سیڑھی کا کھیل

May 29, 2022

سابق وزیراعظم عمران خان اقتدار سے اترنے کے بعد سوشل میڈیا، جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کے ذریعے نئی مخلوط حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں اور کسی حد تک انہیں عوام میں پذیرائی بھی مل رہی ہے، جبکہ نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف کو عالمی کساد بازاری اور ملک کے دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے ملکی معاملات پر مضبوط گرفت رکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

اِس بحث میں اُلجھے بغیر کہ عمران خان کی تحریکِ انصاف مضبوط دو جماعتی نظام کو روندتی ہوئی کیوں اور کیسے اقتدار میں آئی، ہم ان کی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ 2018میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان حکومتی معاملات کو چلانے کے لیے ایک ایسی ٹیم بنانے میں ناکام رہے جو نہ صرف یہ کہ ان کے وژن کو لیکر آگے بڑھتی بلکہ حکومت کے تمام ستونوں کو ساتھ لے کر چلتی۔ نااہل، ناتجربہ کار اور حد سے زیادہ خود اعتماد وزراء کی اکثریت مضبوط بیورو کریسی کی مدد کے بغیر اپنی وزارتوں میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی اور ملک کے دو بڑے صوبوں میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت تھی، وزرائے اعلیٰ کے غلط انتخاب اور وزیراعظم کی مسلسل پشت پناہی نے حکومتی کارکردگی کو مزید گہنا دیا جس سے نہ صرف عوام بلکہ حکومتی پارٹی کے ممبران بھی اپنی ٹیم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے لگے۔ حکومتی ٹیم کے کپتان عمران خان جن سے قوم خصوصاً نئی نسل کو بہت سی توقعات تھیں، بعض وجوہات کی بنا پر اپنی ٹیم کو مکمل گرفت میں نہ رکھ سکے اور ملکی معاملات سے بتدریج دور ہوتے چلے گئے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کا جانا بہت کم ہو گیا، نتیجے کے طور پر پارٹی ممبران اور اتحادیوں کیساتھ رابطے بھی کم ہو گئے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوتے اور بغیر سوال جواب مطلوبہ منظوریاں لینے کے بعد اختتام پذیر ہو جاتے۔ وزیراعظم کی عدم دلچسپی کا فائدہ اٹھا کر چند قریبی افراد اہم قومی معاملات پر اثر انداز ہونے لگے جس سے قومی سلامتی کے اداروں کو بھی تشویش ہونے لگی۔ حکومت میں شامل بعض وزراء، مشیروں، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور وزیراعلیٰ کی کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہوگئیں اور وزیراعظم عمران خان کی خاموشی تبدیلی کے خواہشمند عوام کے لیے اچھنبے کا باعث تھی۔ ٹیکسٹائل، ماحولیات، ہاؤسنگ اور صحت کے شعبوں میں حکومتی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی، خصوصاً کورونا جیسی وبا کو روکنے کیلئے حکومت نے بلاشبہ بہت کام کیا مگر عوام کو توقع تھی کہ عمران خان کی حکومت توانائی، زراعت، معاشیات، آبی وسائل، تعلیم، روزگار اور آبادی پر کنٹرول جیسے اہم مسائل پر توجہ دے گی جن کو پی ٹی آئی کی حکومت نے نظر انداز کر کے روزمرہ کے کاموں کو فوقیت دی، توانائی پر وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیشن بنایا جس کی سفارشات ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئیں۔

گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان کی سفارتی تنہائی روزِ روشن کی طرح عیاں تھی، گنتی کے چند عالمی لیڈر پاکستان کے دورے پر آئے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان عمران خان کی خصوصی دعوت پر پاکستان آئے اور پھر ہمارے سدا بہار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک غیرذمہ دارانہ بیان نے باہمی تعلقات میں دراڑ ڈال دی۔ مغربی ممالک اور امریکہ کو سب سے زیادہ سمجھنے والے عمران خان کے دورِ حکومت میں ان ممالک کیساتھ تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سمجھ نہیں آسکی، پاکستان کے دوست ملک چین کیساتھ دوطرفہ تعلقات میں گرمجوشی بھی عنقا ہو گئی۔

سیاست سانپ سیڑھی کا کھیل ہے، اقتدار اور طاقت سے محروم عمران خان دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں مگر اِس کے لیے اُنہیں خود کو بدلنا ہوگا، خود پرستی اور انا کے خول سے نکلنا ہوگا، ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ قابل، دیانت دار اور تجربہ کار ٹیم تشکیل دینی ہوگی، متوازن خارجہ پالیسی بنانی ہوگی، وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا ہوگی، ملک کی ترقی اور بقا کو ہر چیز پر فوقیت دینا ہوگی۔ سیاسی حلیفوں اور حریفوں کیساتھ رواداری اور برداشت کا رویہ اپنانا ہوگا۔گزشتہ برسوں میں پھیلی کورونا کی وبا اور حالیہ روس یوکرین جنگ نے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں اور ہمارا ملک بھی سخت مشکل اور دباؤ میں ہے جبکہ ہمارے موجودہ اور ماضی کے حکمران ایک دوسرے کو معاشی انحطاط کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ ملک اور معیشت کو بچانے کے لیے سب فریقین کو داخلی اور خارجی محاذ پر مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی کیونکہ اگر ملک ڈیفالٹ ہوا تو نقصان بلا تفریق سب کا ہوگا۔

(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)