مافیا کی سرزمین

June 04, 2022

جب میں نوجوان تھا تو میرے پاس اس ملک کو چھوڑ جانے کے لاتعداد مواقع تھے لیکن میں نے بہت غرور کے ساتھ اس ترغیب کو جھٹک دیا۔ آنے والے برسوں میں ایسے مواقع کی لہریں ابھرتی رہیں لیکن اپنے وطن میں ٹھہرنے کی خواہش کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ درحقیقت جس دوران پاکستان میں معاملات انحطاط پذیر تھے، میرا جذبہ توانا ہوتا رہا کہ یہی وہ جگہ ہے جس سے میرا تعلق ہے اور میں یہیں رہوں گا۔ مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج، جب زندگی کئی گھاٹیاں اتر چکی، اس عزم کے پائوں تلے سے ریت سرک رہی ہے۔ حالیہ دنوں پیش آنے والے واقعات نے میرا ذہن مائوف کردیا ہے۔ سخت شرمندگی ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں رہ رہا ہوں جس پر مبینہ ملزموں اور مفروروں کا ٹولہ حکومت کررہا ہے۔ موجودہ کابینہ کا ستر فیصدایسے افراد پر مشتمل ہونا ہرباعزت شہری کے لیے بے پناہ شرمندگی کا باعث ہے۔ ملک پر نازل ہونے والی اس تازہ ترین آفت کے تانے بانے بننے والوں پر اس حقیقت کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ایک جمہوری اور آئینی حکومت کو گرانے کےمنصوبے کی تکمیل میں عملی طور پر ریاست کے تمام اداروں نے کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسا منفرد ملک بن چکا ہے جہاں جرم کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ قومی کردار میں سرایت کر جانے والی نئی رسم یہی ہے۔

درحقیقت ہم کئی حوالوں سے ایک منفرد ملک ہیں۔ مجھے دنیا کاکوئی اورملک دکھا دیں جسے مبینہ ملزموںکے حوالے اس لیے کردیا جائے تا کہ وہ اپنی لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع کرسکیں۔ مجھے کوئی ایسا ملک دکھا دیں جہاں کئی ایک مجرموں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت ذاتی مفاد پر مبنی ایسی قانون سازی اور ایسی مخصوص ترامیم لارہی ہوجو اُنھیں منی لانڈرنگ اور دوسرے سنگین جرائم سے بری کردے۔ مجھے کوئی ایسا ملک دکھا دیں جہاں احتجاجی مظاہرین پر زہریلی آنسو گیس کی بارش، اور وحشیانہ ریاستی جبر کی انتہا کردی جائے، اور جہاں مرد اہل کار خواتین کو گھسیٹ کر گاڑیوں سے باہر نکالیں اور ان پر جلد بازی میں مقدمات درج کر لیے جائیں۔ مجھے کوئی ایسا ملک دکھا دیں جہاں اراکین پارلیمنٹ کو جانوروں کی طرح اِدھر سے اُدھر ہانک لیا جائے کیوں کہ وہ قابل فروخت ہیں اور قیمت لگنے پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرسکتے ہیں، اور جہاں قائد حزب اختلاف کی علانیہ حیثیت یہ ہو کہ وہ موجودہ وزیر اعظم کی پارٹی کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑنے جارہا ہو۔مجھ کوئی ایسا ملک دکھا دیں جہاں انسانی ضمیر قابل فروخت مال میں سستی ترین چیز ہو۔ مجھے کوئی اور ملک دکھادیں جہاںشرم نامی چیز ڈھونڈے سے نہ ملتی ہو اور جرم کا فتح کی علامت کے ساتھ سرعام خیر مقدم کیا جاتا ہو۔ یہ توہین آمیز فہرست بہت طویل ہے۔ انسان بیان کرتے ہوئے بے دم ہوجائے گا، فہرست ختم نہیں ہوگی، جیسا کہ ٹی ایس ایلیٹ نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’’میں اپنی زندگی سے بیزار ہوں، اوران کی زندگی جی رہا ہوں جو میرے بعدآئیں گے۔ میں اپنی موت، اور اپنے بعد آنے والوں کی موت مر رہا ہوں۔‘‘یہ ہے وہ کرب ناک احساس جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اس ملک کی تخلیق کے بعد برس ہا برس تک لوگ خواب غفلت کا شکار رہے جب کہ اسے بے دردی سے لوٹا جارہا تھا۔ انھیں نہ تو شعور تھا کہ ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی اس لوٹ مار کا مقابلہ کرنے کی تاب تھی۔ وسائل سے فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ نے اُنھیں وسیع و عریض شہری بستیوں اور پسماندہ دیہی برادریوں میں غلام بنا رکھا تھا۔ معاشی غلامی اس گرفت کی سب سے بھیانک شیطانی شکل تھی جہاں چند سکوںکے عوض اگلی نسلوں تک کا سودا کردیا گیا۔ لوگ اپنی ناہموار زندگی کے تھپیڑے کھاتے رہے جب کہ اُن کی قسمت پر بدحالی کی مہر ثبت کی جاچکی تھی۔ وہ نہیں جانتے کہ اُن کا مقدر کیا ہے، سوائے اس کے کہ الیکشن والے دن اُنھیں جانوروں کی طرح ہانک کرلے جایا جائے گا تاکہ وہ اپنے اُن مالکوں کو ایک مرتبہ پھر ووٹ دے دیں جنھوں نے اُن کا مستقبل تک بیچ کھایا ہے۔ سراسر ظلم ہے کہ کس طرح ملک کی تقدیر اس مراعات یافتہ اشرافیہ کے ہاتھ میں دے دی گئی جو لوگوں کو دائمی غلامی میں رکھنے کے لیے مذموم حربے استعمال کرتی ہے۔

پاکستان، عمران خان کا مقروض ہے کہ انھوں نے اپنے جوش و جذبے سے عوام کو اپنے مفادات کا احساس ہی نہیں دلایابلکہ ایسی قوتوں کے خلاف ملک کے وقار کا تحفظ کرنے کا بھی درس دیا جو اسے بے توقیر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سانحے نے عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ وہ اس ظلم سے آگاہ ہیں جو ان کی زندگی کے درپے ہے۔ اُنھوں نے خوف اور غلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں اور آج وہ ماضی کی نسبت زیادہ توانائی سے آواز بلند کررہے ہیں۔ عوام نے جس انداز میں خان کی پکار کا جواب دیااس کی ملک کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ احتجاجی اجتماعات میں انھوں نے جس جذبے کا مظاہرہ کیا وہ غیر معمولی ہے۔ یہ ایک مثالی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے، وہ لوگ جو اپنی غلامی اور استحصال سے بے خبر تھے،آج نہ صرف آواز بلندکر رہے ہیں بلکہ اپنا حق ڈاکوؤں اور غاصبوں سے چھیننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ یقین مہم ہے، اب یہ لہر تھم نہ پائے گی۔

تبدیلی برپاہونے کا لمحہ یادگار ہے۔ یہ محض اپنے حقوق واپس چھین لینے کی جدوجہد نہیں، نہ ہی یہ صرف ریاستی اداروں کو حکومتی امور میں آئین اور قانون کے منافی مداخلت سے باز رکھنے کا موقع ہے۔ نہیں، چیلنج اس سے کہیں بڑھ کرگھمبیر ہے۔ درپیش چیلنج ایسا انقلاب برپا کرنا ہے جو اس روایت کو تبدیل کردے جو اس ملک پر مسلط رہی ہے، لوگوں کی اپنے حقوق کے بارے میں سوچ بدل ڈالے، اور وہ جان جائیں کہ اشرافیہ کے نرغے سے کس طرح نکلنا اور آگے بڑھنا ہے۔ لوگوں کو ہتک آمیز غلامی سے بچانے، ذلت کی زنجیریں توڑ ڈالنے کے لیے نعرہ مستانہ لگانا ہوگا۔سر ِدست ملک جرم زدہ سرکس، مافیا کی سرزمین میں بدل چکا ہے۔