عوام ہی ریاست ہیں

June 06, 2022

پاکستان کیلئے سفارتی دنیا بالخصوص بڑے ممالک کی جانب سے مثبت خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک طویل عرصے سے لاہور میں مستقل چینی قونصل جنرل تعینات نہیں تھے بلکہ قائمقام قونصل جنرل موجود تھے لیکن اب چین نے لاہور میں دوبارہ مستقل قونصل جنرل مقرر کر دیا ہے۔ دوستانہ مزاج رکھنے والے نئے قونصل جنرل نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی مجھ سے ملاقات کی۔ پہلی ملاقات ہی میں دنیا جہان کے امور زیر گفتگو رہے۔ اول تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ چین نے محسوس کیا کہ اب لاہور میں دوبارہ سے مستقل قونصل جنرل موجود ہونا چاہئے۔ قونصل جنرل کو لاہور کے بارے میں بہت زیادہ واقفیت حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ انگنت سوالات تھے جو ان کے ذہن میں تھے اور وہ کافی ہوم ورک کے ساتھ آئے تھے، انہوں نے مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سے بہت سارے معاملات کو سمجھا ہے۔ چین کے حوالے سے، جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے ایک چین ڈیسک قائم کیا تھا۔ پنجاب 12کروڑ کا صوبہ ہے جو کئی ممالک سے بھی بڑا ہے، یہاں اس وقت چین ڈیسک سے بھی زیادہ فعال اقدامات کی ضرورت ہے جو باہمی روابط کو مزید مضبوط کر سکیں۔ میں مستقل اس پر تحریر کر رہا تھا کہ چار برسوں سے کوئی امریکی سفیر پاکستان میں تعینات نہیں بلکہ سٹیشن کمانڈر سی آئی اے معاملات کو چلا رہا تھا، اب جمہوری حکومت بحال ہوئی ہے تو امریکہ نے اپنا سفیر بھی بھیج دیا ہے مگر ادھر شدید حیرانی ہے کہ صدر عارف علوی نے ابھی تک ان کی اسنادِ سفارت وصول نہیں کیں۔ صدر ایسا کیوں کر رہے ہیں تو اس کا یہ جواب نہیں کہ ان کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں بلکہ صدر کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں۔ صدر عارف علوی کو مثبت جمہوری رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ میں پہلے بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ دفتر خارجہ اور اس سے متصل اداروں کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ تو سردست ممکن نہیں کہ وہ سی ایس ایس کے نظام میں دفتر خارجہ کے حوالے سے تبدیلی لائے مگر ان سفیروں کے امور پر فوری توجہ درکار ہے جن کو گزشتہ حکومت نے کنٹریکٹ پر تعینات کیا تھا۔ اب حکومت کی تبدیلی کے سبب یہ اپنی تعیناتی کے مقام پر بھی غیر متعلق ہو گئے ہیں اور یہ اقوام متحدہ، امریکہ جیسے اہم مقامات پر موجود ہیں۔ جہاں پر ایک لمحے کے لیے بھی غیرمتعلق ہونے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کسی تاخیر کے بغیر ان سفیروں کے حوالے سے فیصلہ کر کے وہاں نئے لوگ تعینات کرے۔ اسی طرح تھنک ٹینک جیسے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز وغیرہ کو پنشروں کی پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے، اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ یہ اسٹیٹس کو کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی نوکری بچانے کی وجہ سے کوئی بڑا قدم اٹھانے سے معذور ہوتے ہیں۔ بےشک حکومت اس کی تجزیاتی رپورٹ تیار کروالے کہ جو بجٹ ان اداروں کو دستیاب ہے، اس میں سے کتنا تحقیقاتی رپورٹیں تیار کرنے پر خرچ ہوا اور کتنا چائے پانی پر تو سامنے آئے گا کہ یہ سب کچھ تنخواہوں اور چائے پانی پر ہی اڑ گیا۔ خانہ فرہنگ ایران نے خمینی صاحب کی برسی کے موقع پر دعوت تقریر دی تو وہاں یاد کروایا کہ میں نے 2016میں تہران میں اسی نوعیت کی تقریب ، جس کے مہمان خصوصی احمد خمینی تھے، سےخطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کو اپنے معاملات طے کرنے کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر گفتگو کرنی چاہیے جو کہ کوئی فیصلہ کر سکتے ہوں۔ اس وقت سعودی عرب میں شاہ سلمان اور ایران میں خامنائی صاحب موجود ہیں، یہ دونوں بزرگ اتنی حیثیت کے حامل ہیں کہ اپنے ممالک کے معاملات پر گفتگو کر سکیں، ان کو حل کر سکیں، اگر ان میں سے کوئی بھی راہی ملک عدم ہو گیا تو یہ ایک نسل، ایک عہد کا خاتمہ ہوگا اور پھر ان کی جگہ جو چہرے سامنے آئیں گے، ان پر ان کی قوموں کو وہ اعتماد نہیں ہوگا جو آج اپنے رہنمائوں پر ہے۔ اس لیے ان کی موجودگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان دونوں کو براہِ راست گفتگو کا آغاز کرنا چاہیے کیونکہ وزرائے خارجہ کی سطح پر گفتگو سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور اس کے بد اثرات عالمِ اسلام اور وطن عزیز پر مستقل طور پر نمودار ہوتے رہیں گے۔ مسلم لیگ ن کے حوالے سے یہ تصور راسخ ہے کہ یہ بہتر معیشت چلاتے ہیں اور یہی چیلنج ہے کہ اس تصور کو مزید مضبوط کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو آئی ایم ایف کے سابقہ حکومت سے معاہدے کی وجہ سے اور ملک کے معاشی حالات کے سبب بڑھانی ہی تھیں جس کے برے اثرات صرف پیٹرول تک محدود نہیں رہیں گے۔ تاہم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عوام اتنی بات نہیں سمجھتے کہ یہ سب فلاں معاہدے کے سبب ہوا ہے۔ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہم بین الاقوامی معاہدوں سے تو پھر نہیں سکتے لیکن عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا کیا جائے؟ ڈاکٹر اکمل حسین نے موبائل فون سے لے کر سوئس چاکلیٹ تک ایسی چیزوں کی فہرست بیان کی ہے کہ جن کی امپورٹ پر پابندی لگا کر دس ارب ڈالر کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اگر پابندی نہیں لگانی تو ان اشیا کی قیمت کے برابر اُن پر ٹیکس عائد کردیا جائے تو قومی خزانے میں اچھا خاصا اضافہ ہوگا۔ یہ ہے ابھی امیروں کے اللے تللے کیونکہ دو چار لاکھ کے موبائل فون سے لے کر سوئس چاکلیٹوں تک کا استعمال ان لوگوں کا مسئلہ نہیں جو 20، 30ہزار روپے کما رہے ہیں اور بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پال رہیں ہیں۔ اسی طرح گزشتہ بجٹ میں امیر طبقات کے لیے ایک سو تیس ارب روپے کی ٹیکسوں میں مراعات دی گئی تھیں۔ ان ٹیکس مراعات کو فوری طور پر اس بجٹ میں ہی واپس لے لیا جانا چاہیے۔ اور جو رقم ان اقدامات سے قومی خزانے کو ميسر آئے وہ صرف پیداواری سرگرمیوں پر خرچ کی جائے جس کا تعين بجٹ میں ہو تاکہ اگلے سال تک عوام مثبت اثرات محسوس کر رہے ہوں، کیوں کہ ریاست بھی بچنی چاہیے، ریاستی ادارے بھی بچنے چاہئیں مگر یہ سب تب ہی بچیں گے جب عوام بچیں گے کیوں کہ دراصل عوام ہی ریاست ہیں۔