دوسری عالمی سرد جنگ

June 11, 2022

اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ دنیا اس وقت دوسری سرد جنگ کا سامنا کر رہی ہے۔ پہلی سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان طاقت کی کھینچا تانی وجہِ عناد تھی، اس بار امریکہ اس کے اتحادی اور چین اس کشمکش میں فریقین ہیں۔ تجزیہ کار محققین اور حقیقت پسند اس بات پر متفق ہیں کہ مغربی دنیا کی پالیسیوں نے ہی سوویت یونین کے زوال کے بعد چین اور امریکہ کے مابین موجودہ حالات کو جنم دیا ۔ خیال تھا کہ لبرل جمہوریت پوری دنیا پر غالب آجائے گی اور مغربی بلاک کے لیے کوئی چیلنج باقی نہیں رہے گالیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی۔ طاقت کا مرکز ایشیا میں منتقل ہو رہا ہے۔ بہت سے ممالک فریقین کا انتخاب کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں ۔روس کی طرف سے یوکرین پر حملہ ایک اشارہ ہے کہ پہلی سرد جنگ کی راکھ میں چنگاریاں اب بھی باقی ہیں۔ چین کسی پیش قدمی سے گریز کر رہا ہے لیکن یہ صرف وقتی پالیسی ہے۔ سوویت یونین یورپ کی دہلیز پر تھاجبکہ چین ایشیا میں قدرے محفوظ ہے ، اس بار سرد جنگ کا فیصلہ روایتی طریقوں سے نہیں ہوگا۔ دو نتائج متوقع ہیں، ایک تباہ کن عالمی جنگ یا چین اور امریکہ کے درمیان باہمی تسلط کا نیا توازن۔

پہلی سرد جنگ کی طرح، اب امریکہ اور چین کے ساتھ منسلک ممالک کے بلاکس ہیں۔ چین نے تجارت اور سفارت کاری کے ذریعے اتحاد بنانے کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی ہے۔ امریکہ نے دنیا میں چین کے اثر و رسوخ اور تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کو اکٹھا کیا۔ آسٹریلیائی باشندے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور بیجنگ کے بہت سے اقدامات میں شامل ہو کر گیئرز تبدیل کر چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی افواج کو چینی فوجیوں نے شکست دی ،بہت سے علاقوں میں چین اور جاپان کے درمیان مقابلہ ہوا ۔ جاپان امریکہ کا ایک سیٹلائٹ ملک ہے یہ دفاع کے لیے امریکیوں پر انحصار کرتا ہے۔ بھارت کا معاملہ مختلف ہے۔ چین کی آزادی سے ہی پاکستان چین کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ سخت دشمنی اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ کئی ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جو چین مخالف ہیں۔ 1960میں ہونیوالی چین بھارت جنگ ہندوستان کو چین کی قوت و صلاحیت کی یاد دلاتی رہے گی۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات تاحال حل طلب ہیں۔

سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان پہلی سرد جنگ سے مشابہ چین اور امریکہ کے درمیان نئی سرد جنگ جاری ہے۔ کیوبا اور ویتنام پہلی سرد جنگ میں توجہ کے مراکز تھے، تائیوان، ہانگ کانگ اورجنوبی بحیرہ چین موجودہ حالات میں نئی سرد جنگ کے میدان ہیں۔ امریکہ نے تائیوان اور ہانگ کانگ کو بیجنگ کے لیے گڑھے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سوویت یونین کے برعکس چینی کھلی دشمنی اور توسیع پسندانہ پالیسی نہیں اپنا رہے۔ چین نے اپنی طاقت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پرامن اقتصادی ترقی کا سہارا لیا ہے۔ اس نے فوجی اور تجارتی متوازی ترقی کی۔ اس کا آرمڈامریکہ کا ہم پلہ تو نہیں پھر بھی اس نے ایشیا اوراپنی سرحدوں کے ارد گرد زمینی، فضائی اور سمندری حدود میں بھرپور تعیناتیاں کی ہیں۔یہ مغربی بلاک کے دباؤ کی وجہ سے اپنے کسی بھی علاقے کا چھوٹے ممالک کے ساتھ الحاق کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ کوئی بھی غلط مہم جوئی ایک خطرناک تصادم کا باعث بن سکتی اور جوہری ہو سکتی ہے، جو امریکہ کے لیے بھی خطرناک ہو گی۔

چین عروج کی جانب گامزن ہے۔ امریکہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ، چین کی تاریخ سے لاعلمی ہے۔ چین کا راستہ روکنے میں ناکامی کا نتیجہ نئی سرد جنگ کی صورت میں نکلا ہے۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں حقیقت پسندانہ وژن کے فقدان کی بدولت دوسری سرد جنگ جاری ہے۔ امریکی دنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اپنے عروج میں ایک سپر پاور کے طور پر، انہوں نے افغانستان پر حملہ کرکے غیر ذمہ دارانہ غلطیاں کیں جن کے باعث بیس سال سے زیادہ عرصے تک ان کی توانائیاں اور وسائل غیر ضروری طور پر جھونکے جاتے رہے، انہوں نے جھوٹ کے بل پر عراق پر حملہ کیا اور بعد میں اس پر معافی مانگی۔ ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے ردِ عمل میں داعش کا جنم ہوا۔ وہ فلسطین میں جنگی جرائم کے ارتکاب میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتا آیا ہے ۔ امریکی تسلط انتہائی غیر متوازن رہا ۔ اب چین ایک متبادل قوت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ صرف امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا ایک اور سرد جنگ سے بچ جائے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے بارے میں مخالفانہ نقطہ نظر اختیار کیا جو بائیڈن انتظامیہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ شاید ماضی میں اپنائی گئی ناقص پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے وہ کوئی اور آپشن اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔لیکن اب چین کا مقابلہ کرنے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ چین اب بھی بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے،جن میں اسے اس دوسری سرد جنگ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ امید ہے کہ یہ دونوں عظیم ممالک مشترکہ حل تلاش کریں گے اور انسانیت اور کرہِ ارض کےایک بہتر کل کے لیے سوچیں گے اس سے پہلے کہ عالمی سطح پر کسی تباہی سے بچنے کیلئے بہت دیر ہو جائے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)