ابراہیم کا انجام

June 15, 2022

پیٹر اوبورن ایک ممتاز برطانوی صحافی، تجزیہ نگار اور مصنف ہیں جنھوں نے اب تک کئی درجن کتابیں لکھی ہیں- چند سال پہلے انہوں نے پاکستانی کرکٹ پر بھی ایک سیر حاصل کتاب لکھی جس کا شاندار اردو ترجمہ نجم لطیف نے 'وکٹ سے وکٹ تک کے نام سے کیا- پیٹر کئی دہائیوں تک صف اول کے برطانوی اخبارات اور رسائل کیلئے رپورٹنگ اور تجزئیے لکھتے رہے جن میں کثیر الاشاعت روزنامہ ڈیلی میل اور ہفت روزہ اسپکٹیٹر بھی شامل ہیں- اس کے علاوہ وہ مشہور برطانوی روزنامہ ٹیلیگراف کے پولیٹکل ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں- نائن الیون کے فورا ًبعد جب مسلمانوں کے خلاف پوری مغربی دنیا میں مخالفت اور مخاصمت کا ایک لامتناہی طوفان کھڑا کردیا گیا، جس میں مسلمانوں کے سیاسی نظریات، سماجی رویوں اور ثقافتی میلانات سب کو نشانہ بناکر انہیں شدت پسندی اور دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تو پیٹر اوبورن کے بقول وہ اس کھلے عام مسلم دشمنی سے متنفر ہوگئے اور انھیں اپنے خیالات اور نظریات ،جس میں انہیں پروان چڑھایا گیا تھا، کی راست بازی کھٹکنے لگی- پیٹر خود برطانوی اسٹیبلشمنٹ کےحامی ماحول میں پلے بڑھے- ان کے دادا ایک جنگی ہیرو جبکہ والد بھی ایک برطانوی فوجی افسر تھے- کرایسٹ کالج کیمبرج سے فارغ التحصیل اوبورن برطانیہ کی مین اسٹریم صحافت میں آگئے اور جلد ہی صف اول کے صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے-

نائن الیون کے بعد پیٹر اوبورن مغربی دنیا کی ان معدودے چند شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے کھل کر عامتہ المسلمین کا دفاع کیا اور ان کے خلاف ہونے والے ظلم اورزیادتیوں پر آواز اٹھائی- انہوں نے مغربی ذرائع ابلاغ اور خاص کر برطانوی میڈیا میں بڑھتی مسلم مخالف رپورٹنگ کے خلاف بار بار کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حق و صداقت کی آواز بلند کی- 2008 میں انہوں نے ممتاز برطانوی ٹیلی وژن اسٹیشن چینل فور پر ایک ڈاکومنٹری "اٹ شوڈ ناٹ ہیپن ٹو اے مسلم" کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف برطانوی میڈیا میں مسلسل پھیلائی جانے والی منافرت کو اجاگر کیا کہ کس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں مسلمانوں کو ایک منظم طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے، جس سے پورے برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویے اور نفرت کی کاشت ہورہی ہے- اس ڈاکومنٹری فلم کے ساتھ ہی انھوں نے جیمز جونز کے ساتھ مل کر ایک کتابچہ "مسلمان محاصرے میں" بھی شائع کیا جسمیں مسلمانوں پر ہونے والے منظم ظلم و جبر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اسے برطانوی سماج کیلئے ایک انتہائی غیر صحتمند روایت قرار دیا گیا- مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے ان جرائم کی پاداش میں بالآخر پیٹر اوبورن کو مین اسٹریم برطانوی میڈیا سے خارج کردیا گیا یہاں تک کہ ان کے مضامین اب کسی بھی مین اسٹریم اخبار میں شائع نہیں ہوتے مگر وہ اس قسم کے بائیکاٹ کو خاطر میں لائے بغیر بدستور مظلوم قومیتوں اور اقلیتوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں- گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں میں ،میں نے پیٹر کے ساتھ لندن میں ان کے گھر یا برطانوی پارلیمنٹ میں کئی نشستوں کے دوران اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور انہیں ہمیشہ حق کی بنیاد پر اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے پایا-

پیٹر کی تازہ کتاب "ابراہیم کا انجام : مغرب اسلام کے بارے میں کیوں غلط ہے" بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے-اس کتاب میں مصنف مغرب میں اسلام مخالف جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعےاسلام اور مسلمانوں کے خلاف برپا نفرت انگیز بیانیے کا سیر حاصل تجزیہ کرتے ہیں- آپ کے مطابق مغرب کو اسلام کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت پر از سر نو غور کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول’’ بنیادی غلطی اسلام کو سرد جنگ کے تناظر میں دیکھنا ہے اور یہ سمجھنا ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف ایک وجودی تنازع میں گھرا ہوا ہے- اس طرح کی حکمت عملی نہ صرف غلط ہے بلکہ اسی وجہ سے القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ جیسی تحریکوں کو مقبولیت ملی ہے- یہ دہشت پسند گروہ ہمیشہ یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ مغربی جمہوریت ایک ڈھکوسلا ہے‘‘- اوبورن کے مطابق نائن الیون کےبعد مغرب کی پالیسی القاعدہ کے اس تجزیے پر پوری اترتی ہے کہ مغربی لیڈر ہمیشہ آزاد انتخابات اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ سرد جنگ کی طرح اکثر اوقات مطلق العنان حکمرانوں کا ساتھ دیتے ہیں- اس ضمن میں انہوں نےمصر کی مثال دی ہے کہ کس طرح آزاد انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی اخوان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا مگر مغربی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں- مصنف کے مطابق موجودہ حالات کی ذمہ داری مغربی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ان کے بقول دنیا کے تین عظیم مذاہب - یہودیت، عیسائیت اور اسلام - کے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے کی کوئی موروثی وجہ نہیں ہے۔ وہ سب ایک ہی خدا کی پرستش کرتے ہیں جیسے پرانے عہد نامہ کے نبی ابراہیم علیہ السلام ۔ تینوں مذاہب کی ابتدا مشرقِ وسطیٰ میں ہوئی اور بہت سے ایک جیسے تاریخی مقدس مقامات کی تعظیم کرتے ہیں۔ پیٹر کا کہنا ہے کہ ہمیں کہیں سے توشروع کرنا ہے لیکن حالیہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے نفرت کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرناکوئی آسان کام نہیں ہوگا۔