اداروں کے بارے میں غلط بیانی کا نیا رجحان

June 17, 2022

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار بار بار اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی سروسز چیف نے یہ نہیں کہا ہے کہ عمران حکومت یا پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ دفاعی کمیٹی کا مذکورہ اجلاس سابق حکومت کے دور میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں آرمی چیف کے علاوہ ایئر چیف، نیول چیف اور ڈی جی آئی ایس نے شرکت کی تھی۔

پاک فوج کے ترجمان نے اس حوالے سے پہلے بھی وضاحت کی تھی اور گزشتہ دنوں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے غلط بیانی کی بار بار کوشش کے جواب میں واضح کیا ہے کہ اب یہ سلسلہ ِغلط بیانی ختم ہونا چاہئے۔

ملک میں پہلی بار اداروں کے بارے میں منفی پروپیگنڈے، افواہیں پھیلانے اور بیانات کے ذریعے پاک فوج کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی مذموم اور ناکام کوششوں کا نیا اور انوکھا رجحان بنایا جارہا ہے۔ جو نہایت خطرناک اور افسوسناک ہے۔ کبھی عدلیہ، کبھی الیکشن کمیشن اور کبھی ملکی دفاعی اداروں کے بارے میں افواہیں پھیلا کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کی جاتی ہیں کبھی پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے جو سراسر جھوٹ اور بدنیتی پر ہی مبنی نہیں بلکہ یہ اداروں کو کمزور کرنے کی کوششیں ہیں۔

یہ کونسی سیاست ہے کہ اگر کوئی آپ کی مرضی و منشا پر نہ چلے تو وہ برا اور قابل تبرا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ ایسی کوششوں سے ادارے کمزور ہوئے تو ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔

ایسے لوگوں نے ملک کو ایسے معاشی دلدل میں پھنسادیا ہے جس سے ملک کو نکالنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اپنے سابقہ دور حکومت میں وقتی فائدے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ نہایت سخت شرائط پر معاہدہ کیا گیا جس سے مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوا اور جب یہ محسوس ہوا کہ بلکہ بقول سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے ’’ان کو اور خود عمران خان کو چار ماہ پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے ‘‘تو آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی شرائط سے روگردانی کی گئی۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جان بوجھ کر کم کر دی گئیں تاکہ آنے والی حکومت اس بچھائے گئے جال میں پھنس جائے۔ اقتدار سے ہٹنے کے دکھ میں اور نئی حکومت کو معاشی دلدل میں پھنساتے ہوئے اس بدنصیب قوم کا نہیں سوچا گیا کہ جن کے ووٹوں سے وہ پونے چار سال اقتدار کے گھوڑے پر سوار رہے، اس بدنیتی پر مبنی فیصلے سے اصل نقصان اس ملک اور اس کے عوام کا ہوگا۔

عام آدمی کی زندگی مزید دوبھر ہو جائے گی، اس کے علاوہ اقتدار سے ہٹنے پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں اور یہ کوششیں ایک ایسے موقع پر کی گئی کہ جب ان ہی کے ہاتھوں ملک شدید معاشی مشکلات کےگرداب میں پھنسایا گیا ہے۔

دراصل ان لوگوں نے پہلی بار اقتدار کا مزہ چکھا اور اس مزے کا خمار ہے جو اترتا ہی نہیں۔ اس لئے ان لوگوں میں بے چینی اور اضطراب اس حد تک ہے کہ ملک و قوم بھاڑ میں بھی جائے تو ان کو کوئی پروا نہیں۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ ہم نہیں تو پھر کچھ نہ ہو۔ یہ اس ملک اور قوم کی بدنصیبی ہے کہ اس ملک اور قوم کی وجہ سے ایسے لوگ بھی برسر اقتدار آئے جو دوبارہ حصول اقتدار کے لئے یہ سب کچھ قربان کرنے کو جائز اور اقتدار کو اپنا تاحیات حق سمجھتے ہیں۔

یہ اس نظام کی سب سے بڑی خامی اور خرابی ہے کہ کسی طرح بھی ووٹ حاصل کرکے کوئی بھی زمام اقتدار سنبھال سکتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اس کا کتنا اہل اور اس ریاست اور قوم کے ساتھ کتنا مخلص ہے۔ جو اس ملک کو معاشی ڈیفالٹ تک پہنچائے، جو اس ملک کے محافظ اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں جھوٹی اور گمراہ کن افواہیں پھیلائے، عوام پر بدترین مہنگائی کے پہاڑ لاد دیں ان کے بارے میں کیا کہا اور کیا جائے۔

اس کا فیصلہ تو حکومت اور اداروں کو کرنا چاہئے اپنے خلاف غیر ملکی سازش کا لغو پروپیگنڈہ کرنے والوں کے بارے میں یہ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں کہ کہیں ایسے لوگ خود تو اس ملک کے خلاف کسی بیرونی سازش کا حصہ نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کی جاری مہم سے ریاست اور اداروں کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ کر مبینہ نام نہاد سازش کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ ان کو اور سابق وزیراعظم کو چار ماہ پہلے ہی معلوم ہوا تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجا گیا نام نہاد سازش پر مبنی خط ان کو 7تاریخ کو موصول ہوا تھا لیکن اس پر 20دن مکمل خاموشی اختیار کرنے کے بعد 28تاریخ کو اس کا انکشاف کیا گیا۔

اس پروپیگنڈہ کو ناکام ہوتا دیکھ کر فوجی قیادت کو زبردستی گواہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی ،جو پاک فوج کے ترجمان کے وضاحتی بیانات سے مٹی میں مل گئی۔ امید ہے کہ اب اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں غلط بیانی کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق اگلے دس دن میں بہت کچھ سامنے آنے والا ہے اور بعض لوگوں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حالات ایسا رخ اختیار کرسکتے ہیں جو کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کیونکہ ریاست سب سے اہم ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)