تھر میں کوئلے کے ذخائر

June 27, 2022

وطن عزیز کو 2001 کی دہائی میں بجلی کے جس شدید ترین بحران اور لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہا اس کی بڑی وجہ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث ہائیڈل منصوبوں کا مطلوبہ پیداوار دینے میں ناکافی ہونا تھا۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو برسراقتدار آتے ہی بجلی کی کمی پوری کرنے کیلئے تیل و گیس کی صورت میں انتہائی مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑے لیکن بحران پر قابو پالیا گیا۔ آج ڈالر کو پر لگ جانے سے حکومت کو پیداواری لاگت پوری کرنے میں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے جس سے ایک مرتبہ پھر لوڈشیڈنگ کی پہلے جیسی کیفیت لاحق ہے۔ سستی توانائی کے حوالے سے ارضیاتی ماہرین نے اک بار پھر حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں کوئلے کے 185 ارب ٹن ذخائر سے، جن کی مالیت 85 ہزار ارب ڈالر سے متجاوز ہے، توانائی کے سنگین بحران سے نمٹنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ان کے مطابق ملکی معیشت پر درآمدی ایندھن کے اثرات محدود کرنے کیلئے انھیں کام میں لایا جاسکتا ہے ۔ بجلی پیدا کرنے کیساتھ ساتھ کوئلہ ایکسپورٹ کرکے خاطر خواہ زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں صرف سیمنٹ اور شوگر کی صنعتوں میں متبادل ایندھن کے طور پر ان کے استعمال سے پاکستان کو اس مد میں 66 ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ تھرپارکر کے مقامی لوگوں کے مطابق اس صحرائی علاقے میں کوئلے کے ذخائر ان کیلئے واحد اور آخری ذریعہ ہیں جو ان کی ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ارضیاتی ماہرین تھر کے اس کوئلے کو ملک کی صدیوں تک ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس سے چار روپے فی یونٹ بجلی حاصل ہوگی۔حکومت نے چند برس اس کے تکنیکی پہلوؤں پر سوچ بچار بھی کی تھی جس پر اب مناسب پیشرفت ضروری ہے۔ کوئلے کے علاوہ سینڈک اور ریکوڈک میں سونے تانبے اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر بھی حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔