عذرِ گناہ بدتر از گناہ

June 30, 2022

انسان کو وہ ذمہ داری کبھی نہیں اٹھانی چاہیے جس کی اس کے اندر صلاحیت یا استعداد نہ ہو بصورت دیگر وہ ناکامی سے ہی دو چار نہیں ہوگا بلکہ اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی کئی نقصانات کا باعث بنے گا۔ کئی لوگ عہدے ، ناموری یا مفادات کے لالچ میں ایسی حرکت کرتے ہیں اور جب منہ کی کھانی پڑتی ہے تو حجت بازی شروع کردیتے ہیں، میں تو ٹھیک تھا لوگ ٹھیک نہیں تھے، ایسے موقع کے لیے یہ محاورہ ہے،عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔

کچھ ایسی ہی کیفیت ان دنوں ہمارے ایک سابق کرکٹر کی ہے۔ان کے تازہ ارشادت پر تو ہم بعد میں آتے ہیں پہلے ان کا اور ہمنوائوں کا اظہار خیال ملاحظہ ہو: ایک صاحب جو ماضی قریب میں رویتِ ہلال کے حوالے سے بڑی سائنسی باتیں کیا کرتے تھے، جنونیت کے بالمقابل بالعموم شعور کا بول بالا دیکھنے کے متمنی رہتےتھے، آج فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان کی سیاست میںاسٹیبلشمنٹ پلیئر ہے، وہکیسےنیوٹرل ہوسکتی ہے۔پاکستان میں ہمیشہ رجیم چینج اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری نے مل کر کی ہے اور یہ کہ اگر عسکری ادارہ نہ چاہتا تو ہماری حکومت نہ گرتی‘‘۔ ماقبل بھی وہ اس نوع کی تلخ نوائی کر چکے ہیں کہ باقی سب باتیں محض باتیں ہیں اصلی بات یہی ہے کہ ہماری ’’ان‘‘ کے ساتھ ان بن ہوگئی تھی ہم نے بہت کوششیں کیں کہ تعلقات ٹھیک ہو جائیں مگر کامیابی نہ مل سکی اس طرح ہم محرومِ تمنا ہو کر رہ گئے۔ ایک اورپنے تئیں نامی گرامی رتن ’’ماہر معیشت‘‘ جنہوں نے موجودہ معاشی بدحالی کی پہلی اینٹ رکھی، فرماتے ہیں کہ ’’آپ طاقت سے ملک بند تو کرسکتے ہیں چلا نہیں سکتے‘‘۔’’طاقتوروں کے لئے یہ پیغام ہے کہ اب قوم بدل چکی ہے، آپ بھی بدل جائیں‘‘۔ ’’امریکی کال پر بند کمرے میں بائیس کروڑ عوام کے فیصلے ہوں گے تو ملک نہیں چلےگا‘‘۔ یہ واضح رہے کہ یہ سب لوگ ذہنی طور پر کس قدر کنفیوژ ہیں، ان سب کی باہمی تضاد بیانی خود الزامات و بیانات سے واضح ہے۔

اردو محاورہ ہے کہ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ، یہاں میاں سے مراد وہ میاں صاحبان نہیں ہیں جنہوں نے تھیوری اور پریکٹس کے تفاوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمتِ عملی یا بیانیے کا ایسا توازن بنا رکھا ہے اور پوری طرح کوشاں ہیں کہ

سانپ مرے نہ مرے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔یہاں مطلوب و مقصود کرکٹر میاں ہیں جو ان دنوں اپنے لیڈران و کارکنان سمیت اس قدر کنفیوزو پریشان ہیں کہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے۔ جرأت رندانہ اتنی ہے کہ بہت کچھ بولنا چاہتے ہیں مگر کیا کریں جیل یاترا کا خوف دامن گیر ہے۔ غصہ آتا ہے تو من چاہتا ہے کہ امریکا سمیت اس کے تمام تر حواریوں پر تابڑ توڑ حملے کئے جائیں بشمول اسٹیبلشمنٹ کسی کو نہ بخشا جائے اس روا روی میں یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ ہم اپنا آئین توڑ کر ان کی خدمت کرتے رہے، سی آئی اے اور ایف بی آئی پاکستانیوں کو اٹھا اٹھا کر گوانتا ناموبے لے گئیں، ہمارے لوگوں نے ان سے پیسے کمائے، رمزی یوسف اور ایمل کانسی کو بیچا گیا، اگر ہم نے امریکا کی شرائط مانیں تو نظریۂ پاکستان کودفن کرنا پڑے گا،بھٹو دور کے علاوہ ہم ہمیشہ امریکی غلامی کرتے رہے۔

جب غصے کا نشہ اترتا ہے تو یوٹرن میں الفاظ کا یہ بہائو تھم جاتا ہے میں امریکا کا مخالف ہرگز نہیں ہوں، ہماری تو ساری برآمدات امریکا و یورپ جاتی ہیں، میں تو بس ٹشوپیپر نہیں بننا چاہتا، میں تو کہتا ہوں، ڈونلڈ لو نے جو مراسلہ بھیجا ہے اس کی زبان غیر اخلاقی ہے اس سفارت کار کو ایسی جرأت نہیں کرنی چاہیے تھی ایسا غیر ذمہ دارانہ مراسلہ بھیجنے پر اسے سخت سزا ملنی چاہیے تھی اور ساتھ ہی پینترا بدل کر اپنی شان یا خودستائی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم نے اس سفارت کار کے خلاف اس قدر احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے کہ آئندہ اسے یا کسی دوسرے سفارت کار کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ ہمیں اس نوع کا کوئی مراسلہ ارسال کرسکے۔

بندہ پوچھے ،حضورکیا آپ وہی نہیں ہیں جن کی ٹرمپ سے ایک ملاقات ہوگئی تھی تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ بے چارے معید یوسف نے کاوشیں تو بہت کیں اگربائیڈن کی ایک کال کروانے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید تمام گلے شکوے ویسے ہی دُہل جاتے حقیقی آزادی یا غلامی کی بحث ہی نہ ہوتی۔

آج اتنی دور دور کی کوڑیاں لانے اور تمام طاقتوروں سمیت سب کو بکائو مال قرار دینے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی پر ایک نظر ڈال کر یہ تسلیم کرلیں کہ ہمیں 2018 میں بھی حکومت نہیں ملنی چاہیے تھی، ہماری اس کے لئے قطعی تیاری نہیں تھی، ہم غربت، بے روزگاری اور بری حکمرانی کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے چکروں میں الجھے رہ گئے یہاں تک کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ اپنے بلنڈرز یا کوتاہیاں تسلیم کرتے ہوئے اصلاح کا سوچنے سے یقیناً آپ سب کی نہ صرف یہ کہ کنفیوژن دور ہوگی بلکہ من کو شانتی بھی ملے گی۔