جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں؟ (گزشتہ سے پیوستہ)

July 01, 2022

تفہیم المسائل

ہدایہ میں ہے :ترجمہ:’’ سَکّاء وہ ہے، جس کا پیدائشی کان نہ ہو، اُس کی قربانی جائز نہیں، اس لیے کہ جب کسی جانور کے کان کا اکثر (تہائی )حصہ کٹا ہو ،تو اس کی قربانی جائز نہیں ، پس جس کا کان ہی نہ ہو ، اُس کی قربانی بدرجۂ اَولیٰ نہیں ہوگی ،(ہدایہ)‘‘۔’’عنایۃ‘‘ و’’غایۃ البیان ‘‘ و ’’ نتائج الافکار ‘‘ وغیرہ میں اس پر تقریر کی۔ منسک متوسط میں ہے: ترجمہ:’’ جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا صرف ایک کان ہو ،تو اس کی قربانی ناجائز ہے، (المسلک المتقسط فی المنسلک المتوسط) ‘‘۔ مسلک متقسط میں اس پرتقریر کی۔ تنویر الابصار میں ودرمختار میں ہے: اور سکاء جس کے پیدائشی کان نہ ہوں ،ناجائز ہے۔ طحطاوی وشامی میں اس پر تقریر کی۔

بدائع امام ملک العلماء میں ہے :ترجمہ:’’ ایک کان کامل کٹا ہوا اور جس کا پیدائشی ایک ہی کان ہو ناجائز ہے،( بدائع الصنائع،کتاب الاضحیۃ)‘‘۔تبیین الحقائق امام زیلعی میں ہے : ترجمہ:’’ سکاء وہ ہے جس کا پیدائشی کان نہ ہو، ناجائز ہے،( تبیین الحقائق،کتاب الاضحیۃ )‘‘۔ مناسک امام کرمانی پھر شلبی علی الزیلعی میں ہے : کیونکہ ا س کا کامل معدوم ہے،( حاشیہ الشلبی علی تبیین الحقائق ،کتاب الاضحیۃ)‘‘۔ شرح طحطاوی امام اسبیجابی پھر خزانۃ المفتین میں ہے: ترجمہ: ’’ سکاء وہ جس کا پیدائش کان یا چکتی نہ ہو، وہ جائز نہیں ہے،( خزانہ المفتین،کتاب الاضحیۃ) ‘‘ ۔

اتقانی علیٰ الہدایہ میں ہے: ترجمہ:’’ امام محمد نے ’’اصل‘‘ میں فرمایا: ہمیں رسول اللہ ﷺ سے روایت پہنچی، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ آنکھ اور کان کو بغوردیکھو‘‘ اور سنن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت فرمایا: ہم آنکھ اور کان کو بغور دیکھیں، تو رسول اللہ ﷺ نے کان کی بقاء کا اعتبار فرمایا ،تو معدوم ہو نا جواز قربانی کے لیے مانع ہوگا، ( غایۃ البیان)‘‘۔ فتح اللہ المعین میں ہے: ترجمہ:’’ سکاء جس کے پیدائشی کان نہ ہو اس کی قربانی نہ کی جائے بخلاف چھوٹے کان کے،( فتح المعین)‘‘۔ مجمع الانہر میں ہے: ترجمہ:’’ اور سکاء جس کے پیدائشی کان نہ ہوں جائز نہیں،( مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر )‘‘۔ سراجیہ میں ہے:ترجمہ:’’ جس کے کان پیدا نہ ہوں جائز نہیں، ( فتاویٰ سراجیہ)‘‘۔

ثانیا :یہی قضیہ حدیث ہے: جیسا کہ تم نے غایۃ البیان سے معلوم کرلیا ہے۔ ثالثا: اس کی وجہ اظہر وازہر ہے۔ جیسا کہ تم نے ہدایہ اور مناسک کرمانی سے معلوم کرلیا ہے۔ ایراث نقص میں عدم طاری واصلی میں تفرقہ کی کوئی وجہ ظاہر نہیں۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے : کن کٹا جانور جس میں اصلاً (یعنی پیدائشی طور پر ) نقص نہیں ہے، بلکہ بعد میں لاحق ہوا، اس کی قربانی توجائز نہیں ہے اور جو اصلاً (یعنی پیدائشی طور پر ) ناقص ہو، یعنی پیدائشی طور پر اس کے کان ہی نہ ہوں ،وہ جائز قرار پائے، یہ فرق ناقابلِ فہم ہے۔ رابعاً: یہی اکثر کتب میں ہے: عمل اُس پر ہوگا جِس پر اکثریت ہو۔ خامسا ً:یہی اَحوط ہے، تو بوجوہ اسی کو ترجیح ا ور اسی پر اعتماد وعمل وفتویٰ واجب، وَاللہ تَعَالٰی أَعْلَمُ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد20، ص:461-64) ‘‘۔

امام اہلسنّت کے اس فتوے کا ماحصل یہ ہے کہ جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، امام اعظم کے مطابق اس کے جواز کا قول کیاجاسکتا ہے، لیکن احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ عدمِ جواز کا قول کیا جائے اور اسی کو ترجیح دی جائے ،اسی پر اعتماد کیاجائے ،عمل بھی اسی پر کیاجائے اور فتویٰ بھی اسی پر دیاجائے، کیونکہ جمہور فقہاء ِ اَحناف کا مختار یہی ہے اور متون وشروحِ فقہ نے عدم جواز پر جزم کیا اور قول خلاف کا نام تک نہ لیا، مُتَقَدّمین فقہاء میں یہ صرف علامہ قاضی خان کا تَفرُّد ہے۔

صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ جس (جانور) کے کان یا دم یا چکتی کٹی ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو، اُن سب کی قربانی ناجائز ہے اور اگر کان یا دم یا چکتی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے ،جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، اُس کی (قربانی) ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں، اُس کی جائز ہے،(بہارِ شریعت ، جلد سوم،ص:341)‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضاقادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے پیدائشی کان نہ ہونے پر قربانی کے عدمِ جواز پر جزم فرمایا اور اُس کی پانچ وجوہات سے ترجیح بیان فرمائی اور عدمِ جواز کے قول کو محتاط ترین ہونے کے سبب قابلِ اعتماد و قابلِ عمل اور واجب قرار دیا ۔فقیہ اعظم علامہ نوراللہ بصیر پوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتاویٰ نوریہ، جلد سوم ،ص:367-68 میں امام قاضی خان کے حوالے سے امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے جواز کے قول کو نقل فرمایا ہے اور ہمارے فَہم کے مطابق انھوں نے یہ قول بطور افتاء بیان نہیں فرمایا بلکہ سائل نے اس حوالے سے آپ سے جواز یا عدمِ جواز پر جزئیہ طلب کیا ہے۔

تاہم ہمارے نزدیک امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری کا فتویٰ ہی راجح ہے کہ اسی پر اکثر فقہائے اَحناف کا عمل ہے اور یہ علّت بھی سمجھ آتی ہے کہ بعد میں لاحق والے نقص (یعنی کن کٹاہونے) کے سبب تو جانور کی قربانی جائز نہ ہو اور پیدائشی نقص (یعنی جس کا پیدائشی کان نہ ہو) کے سبب جائز ہو، یہ حکمت ناقابلِ فہم ہے۔