بازار سیاست میں ’’گرما گرمی‘‘

July 10, 2022

عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کو تین ماہ ہو گئے ہیں لیکن وہ پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو گرا تو نہیں سکے البتہ ان کے جلسوں اور سیمیناروں سے خطاب سے بازارِ سیاست میں ’’گرما گرمی‘‘ زوروں پر ہے، اگر عمران خان اور ان کے حامیوں جنہوں نے صحافت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، کی تقاریر کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ’’ آسمان گرنے والا ہے اور چند ہی دنوں میں سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔‘‘ پنجابی میں ایک کہاوت ہے ’’روندی یاراں نوں ناں لے کے بھراواں دا ‘‘( بھائیوں کا نام لے کر یاروں کو رو رہی ہے ) کے مصداق وہ جلسوں اور سیمیناروں میں نام لئے بغیر ان قوتوں کو للکار رہے ہیں جن کے اشاروں پر کل تک نواز شریف اور آصف علی زرداری کو’’ چور اور ڈاکو‘‘ ثابت کرنے پر اپنا پورا زور لگا رہے تھے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے صحافی اپنا نقطہ نظر سلیقہ سے بیان کرے تو اس کے خلاف کسی قانون کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن جب صحافی ریڈ لائن کراس کر کے سیاست دان بن جائے اور ریاستی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرے تو پھر اسے دنیا کی کوئی قوت قانون کی گرفت سے بچا نہیں سکتی جب سے عمران خان کی حکمرانی ختم ہوئی ہے وہ جہاں اپنے اقتدار سے نکالے جانے کا ذمہ دار امریکی سازش کو قرار دیتے ہیں وہاں اب اشاروں کنائیوں میںحکومت سے نکالے جانے کی ’’سازش ‘‘ کے ڈانڈے پاکستانی کرداروں سے جا ملاتے ہیں ، وہ اب معنی خیز گفتگو کررہے ہیں، انہوں نے دھمکی دی ہے کہ ’’مجھے پوری سازش کے ایک ایک کردار کا پتا ہے میں نے ایک وڈیو بنا کر رکھی ہے اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ وڈیو منظر عام پر لائی جائے گی،‘‘ انہوں نے نہ جانے سے کس سے گلہ کیا ہے کہ ’’ کوئی بات ہو جائے تو نامعلوم نمبر سے کال آجاتی ہے ‘‘ انہو ں نے عدلیہ سے بھی سوال کیا کہ ’’مارشل لا لگ گیا ہے ‘‘ بہر حال عمران خان چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں انہوں نے کئی محاذ کھول رکھے ہیں اورہر محاذ پر پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔

عمران خان سمیت تحریک انصاف کے درجن بھر رہنمائوں نے اپنے خلاف مقدمات میں قبل از گرفتاری ضمانتیں درج کرا رکھی ہیں حتیٰ کہ ان لیڈروں نے بھی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی ہے جو جیل کو ’’عجلۂ عروسی ‘‘ سمجھتے تھے پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر موجودہ دور حکومت میں جیل جانے کے لئے تیار نظر نہیں آتا جب کہ عمران حکومت میں نواز شریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز ، شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال ، خواجہ آصف ، سید خورشید شاہ سمیت اپوزیشن کے تمام چیدہ چیدہ لیڈر مہینوں جیل میں رہے کسی نے اُف تک کی اورنہ ہی رہائی کی دہائی دی اور بھیک مانگی۔ سیاست دانوں کے لئے جیل جانا تو اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لئے کئی روز تک وزیر اعلیٰ ہائوس پشاور میں پناہ لئے رکھی جب ان کو اس بات کی یقین دہانی کرا دی گئی کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا توانہوں نے دوبارہ میں بنی گالہ میں رہائش اختیارکر لی اور پھر کم و بیش14مقدمات میں ضمانت منظور کروا لی۔ عمران خان 26مئی2022کی صبح ریڈ زون تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد 6روز بعد پھر آنے کا الٹی میٹم دیا تھا،دوبارہ اسلام آباد آنے کے لیے سپریم کورٹ سے تحفظ مانگ لیا لیکن ان کو ریڈ زون آنے کی اجازت نہ ملی اور پھر وہ عدالت کے ذریعے پریڈ گرائونڈ میں ایک بڑا جلسہ کر کے پر امن طورپر گھر واپس چلے گئے، عدالت کو دی گئی کمٹمنٹ کے مطابق کوئی گملا توڑا اور نہ ہی ریڈ زون کا رخ کیا۔

وفاق میں لڑی جانے والی سیاسی لڑائی نے اب پنجاب کا رخ اختیار کر لیا ہے، پنجاب اسمبلی کے 20حلقوں میں 17جولا ئی2022ء کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں،ان 20حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز لیگی امیدواروں کے انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہی ہیں جبکہ عمران خان خود انتخابی معرکے میں کود پڑے ہیں لہٰذا پنجاب میں مریم نواز اور عمران خان کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے، دونوں جماعتوں کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج مستقبل کی سیاست کے رُخ کا تعین کریں گے جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے اس کی قیادت بڑی حد تک مطمئن دکھائی دیتی ہے، لیگی حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہےکہ 20میں سے13، 14نشستیں مسلم لیگ جیت جائے گی جب کہ 7،8نشستوںپرمسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا جن نشستوں پر مسلم لیگ (ن) نے 2018ء کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دیا تھا اب ان کی بجائے پی ٹی آئی کے منحرفین کو ٹکٹ دینے سے ان مسلم لیگی امیدواروں نے بغاوت کر دی ہےلہٰذا ان نشستوں پرمسلم لیگ (ن) کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے سپریم کورٹ نے22جولائی 2022ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لئے ری پولنگ کا حکم جاری کیا ہے اس طرح مسلم لیگ (ن) کو 9 اور پی ٹی آئی کو 13 نشستوں کی ضرورت ہے.17جولائی 2022ء کو ضمنی انتخابات ہوں گے ۔ حمزہ شہباز شریف اگراپنی وزارت اعلیٰ بچانے میں کامیاب نہ ہوئے تو پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی تحلیل کر کے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کی راہ ہموار کر سکتی ہےبصورت دیگر 2022ء میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، عمران خان کو آئندہ سال اگست تک حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔

جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے توانہوں نے ریڈ زون کے کنٹینرز کو ’’بھاری پتھر ‘‘ سمجھ کر چھوڑ دیا ہے ان کی تمام ترتوجہ پنجاب کے ضمنی انتخابات پر مرکوز ہے سابق خاتونِ اول کی آڈیو لیک ہونے کے بعد عمران خان نے بھی دھمکی آمیز بیان دیا ہے کہ ’’ اگر ان کو کچھ ہوا تو ان کی وڈیو جاری کر دی جائے گی۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی یہ دھمکی کس قدر کارگر ثابت ہوتی ہےبہر حال ریاستی اداروں کو للکارنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آگیا ہے بہت جلد صورتِ حال واضح ہو جائے گی کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)