دروغ گوئی کی انتہا

August 14, 2022

اس میں شبہ نہیں کہ شہباز شریف کی صوبائی کابینہ سے وفاقی کابینہ تک ، سب سے دبنگ اور وفاداروزیررانا ثنا اللہ ہی تھے جن کی دبائو اور تشدد برداشت کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے ،ان پر ن لیگ سے بے وفائی کےلئے شدید دبائو ڈالا گیا لیکن کوئی ان کو ٹس سے مس کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جس کی مثال ان پر قائم ہونے والا ہیروئن کیس تھا جس میں ان پر تشدد اور دبائو کی انتہاکردی گئی لیکن وہ آخردم تک ثابت قدم رہے، یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو سب سے مشکل وزارت یعنی وزارتِ داخلہ کا قلمدان ان کو سونپاگیا ، ان پر شاید اب تک کی سب سے طاقت ور اپوزیشن جماعت تحریکِ انصاف کو قابو کرنےکی ذمہ داری تھی لیکن قانون کی حدود میں رہتے ہوئے ، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ، انھوں نے تحریک انصاف کا پہلا دھرنا و جلسہ بری طرح ناکام بنایا ،لیکن ان پر اپنوں اور پرائیوں، سب کی تنقید کا سلسلہ پھربھی جاری رہا کیونکہ وزیر داخلہ بننے کے باوجود وہ تحریک انصاف کے سربراہ یا کسی بھی بڑے وزیر کے خلاف کرپشن ،بد عنوانی یا کم از کم اختیارات کا ناجائز استعمال جیسا کوئی بھی کیس قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ شہباز شریف حکومت کو بیوروکریسی کا وہ تعاون حاصل نہیں تھا جو عمران خان کی حکومت کو حاصل تھا ، یہی وجہ تھی کہ وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی وہ نہ تو نواز شریف کے خلاف بنے جھوٹے کیسز کو قانونی طریقے سے ختم کرانے میں کامیاب ہوپارہے تھے اور نہ ہی دیگر رہنمائوں کے لئے کوئی آسانیاں پیدا کر پارہے تھے ۔دوسری جانب عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ شہباز حکومت کے خلاف دبائو میں اضافہ کرتے جارہے تھے ،عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ عوام میں جگہ بنا چکا تھا ،اسی بیانئے کی وجہ سے ہی پنجاب میں ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کوکامیابی حاصل ہوئی اور پنجاب میں حمزہ شہباز کی بنی بنائی حکومت کا خاتمہ ہوا ، ملک میں غیر یقینی کی صورتحال بڑھی جس سے معاشی بحران بھی بڑھا ،ڈالر ڈھائی سو کو چھو کر اب واپسی کی راہ پر ہے۔بارشوں اور سیلاب نے الگ عوام کو تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے، لیکن شاید ا سے ن لیگ کی خوش قسمتی ہی سمجھا جائے گا کہ تحریک انصاف کے بیانیے کی بلی شہباز گِل کی بدولت تھیلے سے باہر آہی گئی ، جو کا م اپنی حکومت کے قیام کے وقت سے ن لیگ اور اتحادی جماعتیں کرنا چاہ رہی تھیں وہ شہباز گل نے بہت ہی کھلے لفظوں میں کرکے عوام کے کان بھی کھڑے کردیے ہیں ،کیونکہ عوام کو جب تک تحریک انصاف کا بیانیہ امریکہ مخالف محسوس ہورہا تھا تو اس وقت تک عوام تحریک انصاف کی حمایت کررہے تھے لیکن جب سےشہباز گِل کا ایک ٹی وی چینل کو دیا گیا انٹرویو منظر عام پر آیا ہے عوام بھی سوچنے پر مجبو ر ہوچکے ہیں کہ تحریک انصاف کی حمایت کرنا کہیں ان کی غلطی تو نہیں تھی ،کیونکہ اس انٹرویو میں شہباز گل اپنی پارٹی کی ترجمانی کرتے ہوئے بہت ہی کھلے اور صاف لفظوں میں پاک فوج کی اعلیٰ کمان اور نچلی کمان کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے ،جسے عام لفظوں میں بغاوت پر اکسانا بھی کہا جاسکتا ہے ، وہ اس فوج میں دراڑ ڈال رہے تھے جس کی وجہ سے آج پاکستان قائم دائم ہے ، صرف یہی نہیں بلوچستان میں سیلاب زَدگان کی مدد میں مصروف پاک فوج کے چوٹی کے افسروں کی شہادت ہوئی تو تحریک انصاف نے ان کے خلاف بے ہودہ اور جھوٹا ٹرینڈ چلوایا ، پھر عوام میں امریکہ مخالف بیانیہ قائم کرکے خفیہ طور پر تحریک انصاف امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کے لئےساٹھ لاکھ روپے ماہوار پر امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کررہی تھی، اسے کہتے ہیں دروغ گوئی کی انتہا،

بہرحال حکومت اس وقت شہباز گل کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ تحریک انصاف ایک خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگی حکومت شہباز گل کیس کو کس طرح منطقی انجام تک پہنچاتی ہیں اور تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوتا ہے ؟ یہ بات تو یقینی دکھائی دیتی ہے کہ عمران خان کی فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کیس میں نااہلی یقینی ہے۔ آخر میں دنیا بھر میں تمام ہم وطنوں کو جشنِ آزادی کی خصوصی مبارکباد ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)