روپے کی قدر مسلسل مستحکم ہونے کی وجوہات

August 15, 2022

میں اپنے گزشتہ کالموں میں ڈالر کی طلب میں اضافے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر تجزیہ پیش کرچکا ہوں ۔آج میں روپے کی قدر میں اضافے اور ڈالر کی طلب میں کمی کی وجوہات پیش کرنا چاہوں گا۔ گزشتہ دنوں فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان اور ملک ظفر پراچہ نے بتایا کہ آج ہمارے کائونٹرز پر ڈالر فروخت کرنے والے زیادہ اور خریدنے والے نہیں ہیں۔ 3اگست کو ڈالر کی انٹربینک میں قدر میں 9.58روپے کی ریکارڈ کمی ہوئی جو ایک وقت پر 12روپے تک پہنچ گئی تھی جو پاکستان کی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے کیونکہ اس سے پہلے نومبر 1998ء میں ڈالر کی قدر میں ایک دن میں 5روپے کی کمی ہوئی تھی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہورہا ہے اور گزشتہ 6دنوں میں ڈالر کی قدر میں مسلسل 28 روپے کی کمی دیکھنے میں آئی جو 240روپے کی بلند ترین سطح سے کم ہوکر آج 212روپے پر بند ہوا جب کہ آئی ایم ایف قسط کی وصولی، پاکستان سے افغانستان کو ڈالر اسمگلنگ اور امپورٹ پر قابو پانے سے ڈالر کی قدر 200روپے تک آسکتی ہے جس کا فائدہ ایک عام آدمی کو کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں اور ملکی قرضوں کی ادائیگیوں میں کمی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات میں جون میں ہونے والی ریکارڈ امپورٹ، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ، 3ارب ڈالر کی فرنس آئل کی اضافی امپورٹ، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی منفی ریٹنگ اور ایکسپورٹ ادائیگیوں میں کمی قابلِ ذکر ہے جب کہ کچھ ایکسپورٹرز نے ڈالر کی قدر میں اضافے کے پیش نظر اپنی ایکسپورٹس پے منٹس بیرونِ ملک روکے رکھیں جب کہ کچھ بینکوں نے ڈالر کی طلب میں اضافے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے 28 اور 29 جولائی کو ایکسپورٹ بلز کی ادائیگیاں 234روپے اور امپورٹ بلز کے لئے ڈالر 242روپے میں فروخت کیا۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ بلز میں 8 روپے کا فرق پاکستان کی بینکنگ تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر مضبوط ہونے کی وجوہات میں جولائی میں 2ارب ڈالر کی امپورٹ اور تجارتی خسارے میں 40فیصد کمی، بیرونِ ملک سے ایکسپورٹرز کی ادائیگیوں میں اضافہ، جے پی مورگن کے پاکستان کے ڈیفالٹ نہ ہونے اور آئی ایم ایف کا بیان کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرلی ہیں، دوست ممالک کی جانب سے 4 ارب ڈالر کی اضافی مالی امداد کی یقین دہانی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکہ سے آئی ایم ایف کی 1.2 ارب ڈالر کی قسط جلد جاری کرنے کی بات، سعودی عرب کی ادھار تیل اور قطر کی ادھار گیس سپلائی کی سہولت پر آمادگی اور یو اے ای کی پاکستان کی حکومتی کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی شامل ہے جب کہ چین نے پاکستان پر 2ارب ڈالر کے واجب الادا سیف (Safe) ڈپازٹس جس میں 500ملین ڈالر 22جون، 500ملین ڈالر 27جون اور بقایا ایک ارب ڈالر 23جولائی 2022ء کو واجب الادا ہوچکے ہیں، کی ایک سال کی تجدید پر آمادگی اور مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کیلئے کرنسیSwap سہولت میں بھی اضافہ کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے مجموعی 7ارب ڈالر کے قرضوں کے معاہدے کی بحالی کے فوراً بعد ہماری ورلڈ بینک (2.5ارب ڈالر)،ایشین ڈویلپمنٹ بینک (3.5ارب ڈالر)، اسلامک انویسٹمنٹ بینک اور انفرا اسٹرکچر بینک (500ملین ڈالر)کی مجموعی 6.5ارب ڈالر کے قرضوںکی سہولتیں بحال ہوجائیں گی جو ہمیں مالی سال 2022-23ء میںقرضوں کی ادائیگیوں میں مدد دیں گی۔ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ کے مطابق پاکستان نے رواں مالی سال کے دوران اپنی 34سے 35ارب ڈالر کی ادائیگیوں کیلئے36 ارب ڈالر کے فنڈز کا انتظام کرلیا ہے جب کہ دوست ممالک سے 4ارب ڈالر کی مالی امدد ہمارے بیرونی ذخائر میں اضافہ کریگی جو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے فروری 2022ء میں 17ارب ڈالر سے کم ہوکر آج 7.8ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں۔ گورنر کے مطابق حکومت نے ماضی کی طرح ڈالر کی قدر میں اضافے کو روکنے کے لئے ملکی بیرونی ذخائر سے ڈالر مارکیٹ میں سپلائی نہیں کئے ، اور اگر ایسا کیا جاتاتو زرِمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوجاتے۔

گزشتہ دنوںوزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی چیمبر میں بزنس مینوں سے میٹنگ میںبتایا کہ روپے کی قدر مستحکم رکھنے اور ڈالر کی طلب کم کرنے کیلئے ہمیں اپنے کرنٹ اکائونٹ خسارے اور امپورٹ بل کو مزید کنٹرول کرنا ہوگا جس کے لئے 3مہینے تک لگژری گاڑیوں، موبائل فونز، اپلائنسز اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی برقرار رہے گی لیکن ایکسپورٹ کے خام مال کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔ گزشتہ دنوں معیشت کی بحالی پر ممتاز بزنس مینوں کے عشایئے میں، میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اگست 2018ء میں جب ترکش لیرا نے ایک تہائی قدر کھودی تھی اور افراطِ زر بڑھ کر 36فیصد تک پہنچ گیا تھا تو ترکی کے صدر طیب اردوان نے ترکش لیرا کو سپورٹ کرنے کیلئے قوم سے ڈالر اور یورو نکال کر بیچنے کی اپیل کی تھی جسکے بعد عوام نے چند روز میں تقریباً ایک ارب ڈالر مارکیٹ میں فروخت کئے جس کے نتیجے میں ترکش لیرا مستحکم ہوا۔میری پاکستانی بھائیوں سے بھی درخواست ہے کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرکے پاکستانی کرنسی کو کمزور نہ کریں جس سے ملک میں مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں اپنے ملک اور کرنسی پر اعتماد کرنا ہوگا کہ پاکستانی معیشت اور روپیہ جو تنزلی کا شکار تھا، اس میں بہتری آرہی ہے،مزیدبہتری کیلئے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔