عامر خان کی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کیخلاف ایف آئی آر درج

August 15, 2022

عامر خان کی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کیخلاف ایف آئی آر درج

بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکٹ عامر خان اپنی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کی ریلیز کے بعد سے مختلف وجوہات کی بناء پر مسلسل تنقید کا شکار ہیں۔

اس بار دہلی کے ایک وکیل نے پولیس کمشنر سنجے اروڑہ کو فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کے پروڈیوسر عامر خان،ڈائریکٹر ادویت چندن، اور فلم ڈسٹری بیوٹر پیراماؤنٹ پکچرز کےخلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایڈووکیٹ ونیت جندال نے الزام لگایا کہ عامر خان کی فلم میں کچھ ناگوار مناظر ہیں جن میں ہندوستانی فوج کی توہین کی گئی اور ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔

ونیت جندال نے دفعہ 153 اور 153A کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی وضاحت کی اور کہا کہ فلمساز ایسے مناظر دِکھا کر صرف فساد برپا کرنا چاہتے ہیں، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

اُنہوں نے دفعہ 298 کے تحت وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور 505 کے تحت ایسا کرنا عوامی فساد کو ہوا دینا ہے۔

ونیت جندال کی جانب سے درج کروائی گئی درخواست میں لکھا گیا ہے کہ ’اس فلم میں فلمسازوں نے دکھایا ہے کہ ایک ذہنی معذور شخص کو کارگل جنگ میں لڑنے کے لیے فوج میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی تھی‘۔

اُنہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ فوج کے بہترین اہلکار، سخت تربیت یافتہ فوجی جوانوں کو کارگل جنگ لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن فلم بنانے والوں نے جان بوجھ کر مذکورہ صورتحال کو بھارتی فوج کے حوصلے پست کرنے اور بدنام کرنے کے لیے پیش کیا‘۔

وکیل کی جانب سے یہ بھی الزام لگایا گیا کہ فلم مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔

اُنہوں نے فلم کے ایک سین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جہاں ایک پاکستانی اہلکار نے لال سنگھ چڈھا سے عبادت کرنے کے بارے میں پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور عبادت کرتا ہوں، تم بھی ایسا کیوں نہیں کرتے؟‘

جس پر ’لال سنگھ چڈھا‘نے جواب دیا کہ ’میری ماں نے کہا کہ یہ سب پوجا پاٹھ ملیریا ہے، اس سے فسادات ہوتے ہیں‘۔

درخواست میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’یہ مکالمہ پوری ہندو برادری کے لیے توہین آمیز ہے کیونکہ یہ نا صرف مذہبی جذبات کو بھڑکاتا ہے بلکہ ہندو مذہب کے پیروکاروں میں اشتعال انگیزی کا باعث بھی بنتا ہے‘۔

ونیت جندال کی جانب سے درخواست میں مزید لکھا گیا ہے کہ یہ بیان فلمسازوں کے مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان جنگ چھیڑنے اور دشمنی پھیلانے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے جو کہ ہندوستان جیسے سیکیولر جمہوری ملک کے نظریے کے خلاف ہے اور قانون کے مطابق جرم ہے‘۔