سیلاب کی تباہ کاریاں اور کرنے کے کام

August 31, 2022

پاکستان یوں تو1947سے مختلف نوعیت کی آفات کا سامنا کر رہا ہےاور مشرقی اور مغربی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی داستان تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے لے کر میاں شہباز شریف تک تمام وزرائے اعظم کی سیلابی پانی میں کھڑے ہوکر بنائی گئی تصاویر بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سیلاب کے بعد اربوں روپے مختص کرنے کے حکومتی دعوے بھی اخبارات کی فائلوں میں دفن ہیں۔مرنے والوں کے نوحے،سماجی تنظیموں کی خدمات،پاک فوج کی قربانیاں،استحصالی طبقے کا گھناؤنا کردار،ذخیرہ اندوزوں کی داستان،تکلیف کے موقع پر سستی چیزیں مہنگا کر کے بیچنے والے تاجر نما بھیڑیوں کی کہانیاں بھی ہر بار سامنے آتی ہیں لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کریں تو کیا کریں؟ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر عوام پر توہین آمیز طریقے سے خوراک پھینکنے کا عمل ہو یا جلسوں کی بے وقت کی راگنی،یہ تمام مناظر تکلیف دہ ہیں۔عوام کی جان، مال اورکاروبار سب کچھ تباہ حال ہے لیکن ترجیحات کا فرق پوری قوم دیکھ رہی ہے۔لہٰذا کچھ گزارشات حکمرانوں کے اور کچھ سماجی رضاکاروں کے گوش گزار کررہا ہوں۔ایک موقر معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق متاثرہ افراد کو فوری ریلیف فراہم کرنے کیلئے کم از کم 72ارب 36کروڑ روپے درکار ہیں، خوراک اور نقد امداد کیلئے 8ارب سات کروڑ روپے،نان فوڈ آئٹمز کیلئے 8ارب روپے،طبی امداد کی فراہمی کیلئے1ارب 6کروڑ روپے، مویشیوں کے نقصان کی تلافی کیلئے 9ارب 24لاکھ،امدادی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والی مشینری کیلئے 4ارب 6کروڑ روپےدرکار ہونگے۔ تباہ شدہ مکانات کے مالکان کو فی کس پانچ لاکھ روپے کے حساب سے 41ارب روپے کی ضرورت ہو گی۔ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے حکومت کے پاس وسائل دستیاب نہیں۔لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ پہلے مرحلے میں پوری دنیا میں اپنے سفارت کاروں کو متحرک کرے۔ وہاں کی حکومتوں اور مخیر حضرات سے روابط قائم کرے اور پاکستان کیلئے فنڈر کی فراہمی کا بندوبست کرے۔حکومت کے کرنے کا دوسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لائے۔غیر ملکی امدادی ادارے حکومت پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔وہ حکومت کے شاہانہ اخراجات پر معترض ہیں۔حکومت کو بھی اپنی شاہ خرچیاں ختم کرکے سادگی اختیار کرنا ہوگی تاکہ امدادی ادارے ان پر اعتماد کر سکیں۔امداد کیلئے جانے والے ہمارے وفود پانچ ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔اور فنڈنگ سے زیادہ اخراجات کر کے واپس لوٹتے ہیں، حکومت کو اس پہلو پر بھی توجہ دینا ہوگی۔حکومت کے کرنے کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ چین اور یورپین یونین کو یہ باور کروائے کہ پاکستان میں یہ ساری تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔اور ان تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہےجب کہ تباہی کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔چین سمیت وہ تمام صنعتی ممالک جنہوں نے اپنی ترقی کی خاطر پاکستان سمیت ایشیائی ممالک کے ماحول کو تباہ و برباد کر دیا ،وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ اس تباہی اور نقصان کی تلافی کیلئے پاکستان کی مدد کریں۔ حکومت کے کرنے کا چوتھا کام یہ ہے کہ وہ سماجی کام کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی ربط پیدا کرے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ضلعی سطح پر کام تقسیم کرنے کیلئے میکانزم تشکیل دے اور قومی سطح پر بڑے اداروں کو اکٹھا کرکے علاقے تقسیم کر دیئے جائیں تاکہ ریلیف کا سارا کام ایک ہی جگہ پر نہ ہوبلکہ تمام متاثرین اس سے مستفید ہو سکیں۔ حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ بڑی این جی اوز کو بلوچستان میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور ان کی سیکورٹی کا بھی بندوبست کیا جائے۔حکومت کے کرنے کا پانچواں کام یہ ہے کہ وہ بحالی کے کام میں بڑی این جی اوز اور غیر ملکی اداروں کا تعاون حاصل کرے۔منہدم مکانوں کو تعمیر کرنا اکیلی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی۔لہٰذا مکانات کی تعمیر کے عمل میں نجی شعبے کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔حکومت کے کرنے کا آخری کام یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے نقصان کا باعث بننے والے اسباب کا تدارک کیا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کا ادراک کرتے ہوے دیرپا منصوبے بنائے جائیں۔ آبی گزرگاہیں اصلی حالت پر بحال کی جائیں۔ ڈیموں کی تعمیر میں جہاں غفلت ہوتو اس کا ازالہ کیا جائے۔ کالاباغ ڈیم کی فوری تعمیر بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے کیوں کہ تمام فریق اس وقت حکومت کا حصہ ہیں۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر اس عظیم قومی منصوبے کا آغاز کریں۔دریا کنارے آبادیوں کی تعمیر کیلئے مؤثر قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے تاکہ مستقبل میں نقصانات سے محفوظ رہا جا سکے۔

اب کچھ گذارشات سماجی رضاکاروں کی خدمت میں:

سیلاب جیسی آفت سے نمٹنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔سماجی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ باہمی ربط پیدا کرکے منظم انداز میں الگ الگ کام کریںتاکہ ساری توانائیاں اور رقم ایک ہی منصوبے میں صرف نہ ہوں۔علاوہ ازیں، تعلیم کے فروغ کے لیے بچوں کو کتب کی فراہمی اور سکولوں کی بحالی ممکن بنائی جائے۔ سکولوں کے اساتذہ کو ترجیح دیں تاکہ تعلیمی سلسلہ بحال ہو سکے۔سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ خواتین کے استعمال کی اشیا کی فراہمی پر توجہ دیں تاکہ وہ مخصوص ایام کی تکالیف سے عہدۂ برا ہوسکیں۔بہت سی خواتین زچگی کے مراحل میں ہیں ، ان کی دیکھ بھال اور ادویات کی فراہمی ممکن بنائیں۔سماجی اداروں سے آخری گزارش یہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ دیہات میں مردوخواتین کے لیے الگ الگ عارضی بیت الخلا قائم کریں۔میں خود بھی متاثرہ علاقوں میں جاکر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتاہوں۔عملی مشکلات اور مشاہدات پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔