احساسِ ذمہ داری

September 21, 2022

یہ سن دوہزار کی بات ہے۔ پاکستان میں آمریت اپنے پورے کروفر سے براجمان تھی ۔ میں امریکی سفارتخانے میں وہاں کے سیاسی امور کے ماہر شکیل چوہدری سے تبادلہ خیالات کی غرض سے موجود تھا ۔ اکتوبر1999کے آخری ہفتے میں،میں نتائج کی پروا کئے بنا آمریت کیخلاف پریس کانفرنس کر چکا تھا جس پر محترم ارشاد احمد حقانی مرحوم نے مجھ کو محبت آمیز ڈانٹ بھی پلائی تھی کہ تم ابھی جوان ہو اور آمریت خون خوار ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ تم کو کوئی غیر معمولی نقصان پہنچا دیا جائے ۔ بہر حال میں اس پس منظر کا تذکرہ اسلئے دہرا رہا ہوں کہ قارئین کرام اندازہ کر سکیں کہ میں کن حالات میں اور کن نظریات کیساتھ امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ ابھی میری شکیل چوہدری سے ملاقات کو چند ثانيے ہی گزرے تھے کہ ایک امریکی خاتون وہاں پر آ پہنچی اور آنے کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مجھے شکیل چوہدری نے آپ کی آمد سے مطلع کیا تھا میرا نام ايلس ویلز ہے اور یہ وہ ہی ايلس ویلز تھی جو ابھی ماضی قریب میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا تھی ۔

ایلس ویلز سے یہ میرے تعارف کی ابتدا تھی ۔اس وقت موضوع گفتگو صدر کلنٹن کا دورہ پاکستان تھا اور آمریت کے سبب صدر کلنٹن پاکستان کے دورے سے اجتناب بھی کر سکتے تھے۔ ایلس ویلز نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے خیال میں صدر کلنٹن کو دورہ پاکستان کرنا چاہئے؟ اگر پرویز مشرف کو ذہن میں رکھتا تو اس کا جواب نہیں ہوتا مگر میں نے ان کو کہا کہ میرے خیال میں صدر کلنٹن کو دورہ پاکستان ضرور کرنا چاہئے کیونکہ وہ فوجی آمر سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے گفت و شنید کرنے جائیں گے، ریاست پاکستان کا مفاد ہر معاملے سے بلندتر ہے اوریہ انتہائی غیر ذمہ داری ہو گی کہ میں آپ کے سامنے صدر کلنٹن کے دورہ پاکستان کی مخالفت کروں ۔ میں نہ کسی سرکاری عہدے پر تھا اور نہ ہی رہا تھا مگر ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری گردانتا تھا اور گردانتا ہوں کہ سیاسی مخالفت، پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف پاکستان کے مفاد میں گفتگو کی جانی چاہئے ، میں اس وقت مگرششدر رہ گیا جب حالیہ سیلاب سے ایسی بدترین آفت کہ جس میں ایک تہائی پاکستان ڈوب گیا مگر عمران خان اور ان کی جماعت دنیا کو یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو اس آفت کے اثرات سے نکلنے کیلئے امداد مت دے ۔ یہ مصیبت زدگان عام پاکستانی شہری ہیں ان کا کوئی بھی علاقائی، لسانی، سیاسی یا مذہبی پس منظر ہو سکتا ہےمگر عمران خان کو اس کی پروا نہیں اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے حکمراں بن گئے ہیں کہ جن کو مروجہ جمہوری اصولوں کے تحت پارلیمان نے اقتدار سے بے دخل کردیا ہے۔ ایسا رویہ وہ بھی ایک ایسے شخص کی جانب سے جو وزیراعظم کے منصب تک سلیکٹ ہو چکا ہو، کربناک حیرت ہوتی ہے ۔ اور یہ کوئی’’زبان کا پھسلنا‘‘ نہیں ہے کہ جس کے لئے وہ معروف ہیں یہ منفی مہم میڈیا میں بھی جاری تھی ، ایک معروف نیوز چینل کے انویسٹی گیشن ہیڈ نے اپنے چینل پر خبر چلا دی اور مجھے بھی بھیجی کہ شنگھائی کوآپریشن کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی چین اور روس کے صدورسے ملاقاتیں نہیں ہو ر ہیں میں نے اسی لمحے ان کو فون پر بتایا کہ آپ کی معلومات درست نہیں، ان کی ملاقاتیں ان دونوں صدور سے ہو رہی ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنے چینل پر غلط خبر کو روک دیا اور درست خبر کو چلانا شروع کردیا ۔اب خیال رہے کہ یہ پروپیگنڈا اس وقت کیا گیا کہ جب پاکستان شنگھائی کوآپریشن کانفرنس جیسی تنظیم میں ، جو دنیا کی ایک تہائی آبادی کے ساتھ بیس ٹریلین ڈالر سے زیادہ کاجی ڈی پی رکھتی ہے، اپنا سیلاب کا درد بیان کر رہا تھا ۔ پاکستان روس سے گیس پائپ لائن جیسی اپنی بنیادی ضرورت پر مثبت بات چیت کرنے والا تھا جب کہ چینی صدر شی کہہ رہے تھے کہ وزیراعظم شہباز شریف عملیت پسندی اور کارکردگی کی حامل شخصیت ہیں اور پاک چین دوستی کیلئے دیرینہ عزم رکھتے ہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو بتا رہے تھے کہ ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ ان حالات میں تو بڑی سے بڑی سیاسی مخالفت کی زبان کو تالے لگ جاتے ہیں۔ اور اب وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ بھی جا رہے ہیں جہاں پر وہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو لاحق خطرات پر دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں گے۔ اس دورے میں وزیراعظم کو امریکی پاکستانیوں کو زیادہ وقت دینے کی بجائے ان افراد پر زیادہ فوکس کرنا چاہئے جو امریکہ میں ،ان کے پالیسی ساز اداروں میں اہمیت رکھتے ہیں اور اگلے دو تین عشروں تک توقع ہے کہ وہ اہم رہیں گے ۔