کنگڈم کو ہسٹری میں جینا چاہئے؟

September 24, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

واضح رہے کہ کوئین الزبتھ کی نسبت کوئین وکٹوریہ نے زیادہ دکھ اور محرومیاں دیکھیں شاید اسی لئے وہ نسبتاً زیادہ سخت طبع ہو گئی تھیں ۔8ستمبر کو جب کوئین الزبتھ دوئم کے انتقال کی خبر سنی تو ناچیز نے فیس بک پر ان کی تصویر لگاتے ہوئے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کو بہت یاد کیا کہ اگر وہ آج زندہ ہوتےتو ضرور اس طرح کا طویل مرثیہ تحریر فرماتے جو انہوں نے 22جنوری 1901کو کوئین وکٹوریہ کی وفات پر لکھا تھا ۔خیر 1906 میں سرسید کے شاگردوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو اس کا خمیر برٹش سرکار کی وفاداری پر استوار تھا۔ اس لئے اگر 1901 میں نوجوان اقبال نے کوئین وکٹوریہ کا مرثیہ لکھا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہم اس تعزیتی ریفرنس پر بعد میں آتے ہیں۔ پہلے اس بات کا جائزہ کہ کوئین الزبتھ اور کوئین وکٹوریہ میں باہمی فرق یا تعلق کیا تھا؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ برٹش ہسٹری میں سب سے بڑھ کر مضبوط، پاپولر اور طویل حکمرانی کرنے والی یہ دونوں کوئنز محض اتفاق سے اس منصب پر فائز ہوئیں۔ کوئین وکٹوریہ الیگزینڈریہ پرنس ایڈورڈ کی بیٹی تھیں جو کنگ جارج iii کا چوتھا بیٹا تھا ،ان کی پیدائش 24 مئی 1819کو ہوئی اور وہ 20جون 1837ء کو محض 18برس کی عمر میںکوئین بنیں۔ ان سے پہلے ان کے تایا ولیم iii (پیدائش 21 اگست 1765) 26 جون 1830میں کنگ بنائے گئے لیکن محض 7سال بعد 20جون 1837کو وفات پا گئے جبکہ وکٹوریہ کے والد پرنس ایڈورڈ 23جنوری 1820 کو باون برس کی عمر میں انتقال کرچکے تھے۔ ننھی وکٹوریہ اس وقت محض 8 ماہ کی بچی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ کنگ ولیم iv کے دس میں سے آٹھ زندہ بچوں میں سے کوئی بھی جائز نہ ہونے کی وجہ سے تخت کا وارث نہیں بن سکتا تھا ،یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ وکٹوریہ کی تعلیم و تربیت اس کی ماں نے کی۔ وکٹوریہ خود بھی بڑی لائق فائق تھی گھر میں اگرچہ انگلش بولتی تھی مگر ضرورت پڑنے پر یونانی، اٹالین، فرنچ اور جرمن زبان کا خوب استعمال کرلیتی تھی۔ اپنے انڈین خدمت گار منشی عبدالکریم پر بے حد اعتماد کرتی تھی اس سے کسی حد تک اردو، ہندی سیکھی تھی۔انڈیا سے خصوصی لگائو کی وجہ سے برٹش پارلیمنٹ نے 1876ء میں اسے ایمپرس آف انڈیا کا خطاب بھی دیا تھا لاہور کے چیئرنگ کراس میں کوئین کٹوریہ کا مجسمہ بھی ضیا دور تک ایستادہ رہا۔ ایمپریس روڈ اور کوئینز روڈ تو آج بھی موجود ہیں۔ انڈیا سے ان کے لگائو یا اپنائیت کے اور بھی دلچسپ واقعات موجود ہیں۔

کوئین وکٹوریہ نے 10فروری 1840کو اپنے کزن پرنس البرٹ سے اپنی پسند کی شادی کی اور محض سترہ برسوں میں پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا کئے مگر کوئین وکٹوریہ کی بدقسمتی کہ جس طرح اس کے سینے میں اپنے والدکا غم رہا اسی طرح اس کا مہربان اور گہری چاہت رکھنے والا شریک حیات شہزادہ بھی محض 42 برس کی عمر میں بیس سالہ رفاقت کے بعد دسمبر 1861کو چل بسا۔ یوں وکٹوریہ نے بقیہ 40 سالہ طویل عمر ایک بیوہ کی حیثیت سے گزاری۔

کوئین وکٹوریہ کی طرح کوئین الزبتھ ii کو بھی تخت نشینی محض اتفاق سے اس طرح ملی کہ اس کے دادا جارج v کی 20 جنوری 1936 کو وفات ہوئی تو شاہی روایت کے مطابق اس کے بڑے بیٹے اور کوئین الزبتھ کے تایا پرنس ایڈورڈ کو کنگ بنایا گیا مگر کنگ ایڈورڈ viii شاید پیدائشی طور پر عاشق مزاج تھا،وہ ایک چالیس سالہ طلاق یافتہ امریکی خاتون ویلس سمپسن پر دل و جان سے فدا ہو گیا حالانکہ وہ خاتون دوسری شادی کئے ہوئے تھی مگر کنگ ایڈورڈ کی چاہت اور جذبے کے سامنے بے بس ہوگئی کیونکہ کنگ ایڈورڈ viii نے اسے ایک خط کے جواب میں کہہ دیا تھا کہ اگر اس نے کنگ کے ساتھ شادی نہ کی تو وہ اپنا گلاکاٹ لے گا۔ پرائم منسٹر سٹینلے سے لے کر کس کس نے بادشاہ سلامت کو نہیں سمجھایا کہ آئینی ہی سہی اتنی بڑی سلطنت کا کنگ ہے تو اس حد تک نہ جائے۔ (جاری ہے)