فیصلوں کے نقصانات ختم کیجئے

September 26, 2022

جولائی 2017 کے جمہوریت پر کاری وار کے بعد کے دنوں کی بات ہے نوازشریف ، مريم نواز سمیت پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے تھے۔ ان کی پیشیوں پر میرا بھی اسلام آباد جانا ہوتا تھا ۔ میں نواز شریف سے ملاقات میں ہر دفعہ ان کو اپنی پہلی ملاقات جو جدہ میں ہوئی تھی کی روشنی میں دیکھتا ،جدہ میں بھی وہ مجھے پر سکون اور پر اعتماد محسوس ہوئے اور ان پیشیوں میں بھی میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ۔ انہی پیشیوں کے دوران ایک دن میں سینیٹر مشاہد اللہ خان مرحوم کے ساتھ پہلی دو قطاریں چھوڑ کر بیٹھا ہوا تھا اور ان سے پاکستان کے مستقبل پر محوِ کلام تھا ۔2018 کے’’جنرل انتخابات‘‘پر گفتگو ہونے لگی، نوشتہ دیوارتھا کہ 2018 کے عام انتخابات کو کس حد تک’’ جنرل انتخابات‘‘ کیا جا رہا ہے۔

میں نے ان سے دوران گفتگو کہا کہ نواز شریف کے بغیر کون سے انتخابات اور کیسے انتخابات ؟ ان انتخابات کی ساکھ بھلا کیا ہو گی اور جب انتخابات کی ساکھ ہی نہیں ہوگی تو انتخابات کے نتیجے میں جو سلیکشن ہوگی وہ قوم کو کئی دہائیاںپیچھے لے جائے گی ۔ آج جب جولائی دو ہزار سترہ کے بعد سے لے کر واقعات کی کڑیاں جوڑتا ہوں تو معاشی تباہی کی تمام وجوہات سامنے آ کھڑی ہو تی ہیں ۔ معاشی تباہی سماجی ڈھانچے،وفاق کی کڑیاں تک ہلا دیتی ہے ۔عام انتخابات کا مطلب جمہوری معاشروں میں یہ ہوتا ہے کہ تمام سیاسی طاقتیں مکمل آزادی کے ساتھ سیاسی میدان میں مقابلہ کر سکیں اور اگر ایسا نہ کرنے دیا جائے تو ایسی صورت میں قوم بدترین نتائج کے لیے تیار رہے ۔ یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان نواز شریف دور میں آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ چکا تھا مہنگائی سے لے کر شرح ترقی تک مثبت اشارے دے رہی تھی ۔ مگر کنٹرولڈ جمہوریت قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور سب کچھ تباہ کر دیا گیا ۔ اب دوبارہ انتخابات نزدیک آرہے ہیں لیکن وہ وار جو جولائی 2017میں کیا گیا تھا اسی طرح قائم دکھائی دیتا ہے۔اگر اگلے عام انتخابات سے وہ نتائج حاصل کرنے ہیں جو جمہوری عمل سے حاصل کیے جاتے ہیں تو پھر نواز شریف کو ہر عہدے کے لیے مقابلےکے میدان میں اور مسلم لیگ کی قیادت کرنے کے لئے ہر قانونی بندش سے آزاد ہونا چاہیے ۔ ورنہ کوئی بھی انتخابی عمل سرے سے بے معنی ہوگا ۔ بہرحال ایک مثبت خبر آئی ہے کہ اسحاق ڈار وطن واپس آ رہے ہیں انہیں کالموں میں ذکر چکا ہوں کہ جتنے مقدمات ان پر قائم کیے گئے ان تمام مقدمات میں مختلف ادوار میں تفتیشی افسران ان کو بے گناہ قرار دے کر مقدمات خارج کرنے کا کہہ چکے ہیں ۔ ان کی پاکستان آمد کے بعد ان کی ماضی کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ امید بندھ چلی ہے کہ منہ زور مہنگائی کو چند مہینوں میں نکیل ڈال دی جائے گی۔ پٹرول بجلی اور ڈالر کی بلند قیمتوں کے سبب عوام جو مسائل جھیل رہے ہیں ان سے نجات مل سکے گی ۔

بطور وزیر خزانہ ان ہی کے دور میں سی پیک پر معاہدے اور کام کا آغاز ہوا تھا ،بدقسمتی سے 2018 کے بعد سی پیک کو سوتیلے پن کا سامنا کرنا پڑا ۔ سی پیک کے جس مرحلہ میں چینی انڈسٹری نے پاکستان آنا تھا اس وقت وطن عزیز پر عمران خان کی حکومت تھی اور تب حالات ایسے پیدا کر دیے گئے کہ وہ انڈسٹری دوسرے ممالک میں چلی گئی اور ہمارا غیر معمولی نقصان ہو گیا سو اس کے وہ نتائج سامنے نہ آ سکے جو پاکستان کی معیشت کے لئے آکسیجن کا کام دیتے ۔ ابھی حال ہی میں چینی صدر نے پاکستان کے لئے اپنے جذبات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ

The two countries have all along stood with each other through thick and thin. No matter how the international situation evolves, China and Pakistan are always each other’s trustworthy strategic partners. "

اور وزیراعظم شہباز شریف کو جس طرح چین کا دوست قرار دیا ہے بہت مثبت خبر ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف سی پیک کے نتائج حاصل کرنے کے لئے شدید طور پر کوشاں تھے جب وہ وزیر اعلیٰ تھے، اب تو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور اس حوالے سے متحرک بھی بہت ہیں ۔ سی پیک کو اس دوران جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے بہت بڑا مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سرزمین پر چینی باشندوں کو ہدف بنایا گیا۔ اس بات کو مکمل طور پر دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سی پیک صرف دونوں ممالک کا ایک باہمی منصوبہ نہیں بلکہ اس کے غیر معمولی علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے اور ہو رہے ہیں ۔ درحقیقت یہ ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جس پر عالمی برادری کی نظریں مرکوز ہیں ۔ پاکستان اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ان مسائل سے ضرور نمٹے گا مگر چین کو سیکورٹی کے معاملات میں پاکستان سے تعاون کو نہ صرف مزید بڑھانا چاہیے بلکہ اس حوالے سے مالی معاونت کو بھی کئی گنابڑھا دینا چاہیے کیوں کہ سی پیک کی کامیابی میں دونوں ممالک کی کامیابی مضمر ہے ۔