سیلاب کے ملکی معیشت پر منفی اثرات

September 26, 2022

پاکستان اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے، ہر شخص حیران ہے کہ75سال میں کبھی اتنا تباہ کن سیلاب دیکھنے میں نہیں آیا جس میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا۔ حال ہی میں، میں امریکہ کے دورے سے واپس آیا ہوں جہاں بے شمار لوگ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجوہات جاننا چاہتے تھے۔ کچھ لوگوں نے گلوبل وارمنگ جبکہ کچھ نے جنگلات کا کاٹنا، کاربن کے اخراج اور فضائی آلودگی سے درجہ حرارت بڑھنے کے باعث گلیشیر پگھلنے اور 700 گنا زیادہ بارشوں کو موجودہ سیلاب کی اہم وجوہات قرار دیا اور اس کے معاشی نقصانات اور مستقبل میں اِسے روکنے کے اقدامات پر لکھنے کی درخواست کی۔

زمین کا حفاظتی نظام جسے فضا کہا جاتا ہے، کرہ ارض پر زندگی کی حفاظت کیلئے ایک ڈھال کے طور پر کام کرتا ہے۔ فضا جن گرین ہائوس گیسوں پر مشتمل ہے، اُن میں اوزون گیس زمین سے تقریباً 30 میل بلند فضا میںایک جھلی کی شکل میں موجود ہے جو زمین کو الٹر اوائلٹ شعاعوں اور خطرناک آلودگی سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرین ہائوس گیسوں میں آبی بخارات کا بھی فضائی تبدیلی میں اہم کردار ہے۔ گرین ہائوس گیسز زمین پر زندگی برقرار رکھنے اور سورج کی روشنی سے زمین کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس عمل میں کچھ روشنی سورج کی طرف واپس لوٹ جاتی ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے کے اس عمل کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے IPCC کی رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی میں پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت6 ڈگری سینٹی گریڈتک بڑھنے کا امکان ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے اس صدی میں دنیا میں سمندروں کی سطح88 سینٹی میٹر تک بڑھنے کا خدشہ ہے اور اس بات کا 90 فیصد امکان ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے گرم ہوائوں کا چلنا اور موسلا دھار بارشیں بڑھ جائیں گی۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں کرئہ ارض کا بڑھنے والا درجہ حرارت پوری دنیا میں ایک جیسا نہیں ہوگا اور کچھ خطوں میں گرمی میں شدید اضافہ ہوگا جس سے بڑے گلیشیر پگھلنے سے سمندروں میں طغیانی بڑھ جائے گی۔ گزشتہ صدی میں زمین کے درجہ حرارت میں 10 فارن ہائٹ اضافہ ہوا ہے۔ اوزون کی تہہ، جو زمین کو خطرناک الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچاتی ہے، میں شگاف پڑگیا ہے جس سے یہ شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچ رہی ہیں جس سے جلدکی مختلف بیماریاں اور انسانی مدافعتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سائنسدانوں کی پیش گوئی ہے کہ گلوبل وارمنگ بڑھنے سے دنیا کے کچھ علاقے زیر آب اور کچھ علاقے خشک سالی کا شکار ہوجائیں گے جس سے فصلیں بڑے پیمانے پر تباہ ہوں گی جبکہ بارشوں میں اضافے سے سیلاب کے خطرات بڑھ جائیں گے جو آج کل پاکستان میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان میں کاربن کا اخراج صرف ایک فیصد ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا ملک ہے۔ NDC رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2030ء تک 20 فیصد تک کاربن اخراج کم کرنے کیلئے کم از کم 7 ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے جو ملکی وسائل سے ممکن نہیں۔گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے لہٰذا عالمی برادری کو اس سلسلے میں اجتماعی مدد کرنا ہوگی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کے حالیہ دورے کے بعد عالمی برادری سے اس کی اپیل کی ہے اور اب تک ترکی اور یو اے ای سے سب سے زیادہ امدادی سامان پہنچا ہے۔

حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو کم از کم 30 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس سے معیشت کے ہر شعبے کو نقصان پہنچا ہے، 1500 سے زائد انسانی جانوں کے علاوہ 10 لاکھ گھر، 8 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی، 10 لاکھ مویشی، 5000 کلومیٹر سے زائد سڑکیں، 256 پل، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی، سندھ کی 90 فیصد اور ملک کی 45 فیصد فصلیں تباہ ہوچکی ہیں جبکہ سیلابی پانی سے ہیضہ، ڈینگی، ملیریا، ڈائریا اور دیگر جلدی امراض پھیل رہے ہیں اور غذائی اشیاء کی قلت سے زندگی خطرے میں ہے۔ کپاس، جو ہماری ٹیکسٹائل صنعت کا خام مال ہے اور جس کی ایکسپورٹ سے ہم 17 ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ کماتے ہیں، کی فصل کو سیلاب سے 30 فیصد نقصان پہنچا ہے جس سے ٹیکسٹائل صنعت کی ایکسپورٹ پر منفی اثرات پڑیں گے۔ لائیو اسٹاک جو اندرون سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، لاکھوں مویشی سیلاب میں بہہ جانے سے ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا ہے جو ملک میں مزید غربت اور بیروزگاری کا سبب بنے گا۔ پاکستان میں افراط زر (SPI) یعنی مہنگائی پہلے ہی 27 فیصد پر پہنچ گئی ہے جو گزشتہ 50 سال کی بلند ترین سطح ہے جس کے مدنظر پاکستان کو سیلاب کے بعد سخت معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا جس میں افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں مزید کمی، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں اضافہ، قرضوں کی ادائیگیوں کا دبائو، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ شامل ہیں۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں قوم کو تقسیم کرنے کے بجائے ایک قوم بن کر ان سنگین چیلنجز کا مقابلہ کریں اور ملک کو اس بحران سے نکالیں۔ حکومت سے میری درخواست ہے کہ وہ سیلاب کے نقصانات کے مدنظر عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کے قرضے معاف یا موخر کرنے اور یورپی یونین سے GSP پلس کی تجدید کی درخواست کرے کیونکہ فصلوں کی تباہی کے پیش نظر ہمیں کپاس اور دیگر اشیاء کی کمی کو امپورٹ کرکے پورا کرنا ہوگا جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ پڑے گا اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں متاثر ہوں گی۔ مستقبل میں سیلاب کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے جس سے نہ صرف ہم مستقبل میں سیلاب کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں بلکہ بارشوں کے پانی کو محفوظ کرکے زراعت کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)