متعدد کائناتوں کا خیال

September 26, 2022

حذیفہ احمد

ماہرین فلکیات کا دعویٰ ہے کہ خلاء میں متعدد کائناتیں (Multiverse) ہیں، جن میں ہماری کائنات بھی شامل ہے۔ متعدد کائناتیں بعض علمی نظر یات کا نتیجہ ہیں جن میں بالآخر ان متعدد کائناتوں کا وجود لازمی ہے، یہ نتیجہ علم کو نیات میں کوانٹم نظر یہ میں بنیادی ریاضی کو واضح کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں سامنے آتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مختلف کائناتوں کو بعض اوقات متوازی کائناتیں بھی کہا جاتا ہے اور ہر کائنات کی اندرونی ساخت اور ان کے آپس میں تعلق کا انحصار مختلف نظریات پر ہے ،متعدد کائناتوں کا قیاس کونیات، طبیعیات، فلکیات، فلسفہ اور سائنس فکشن میں بھی ملتا ہے۔ اس سیاق میں متوازی کائناتوں کو مختلف ناموں سے بھی یاد کیا جا تا ہے جیسے متبادل کائناتیں ،کوانٹم کائناتیں اورمتوازی دنیائیں وغیرہ۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیلی اسکوپ 14 ارب نوری سال تک بآسانی دیکھ سکتی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کے آگے کیا ہے ؟سائنسدانوں کی تحقیق سے ہم یہ جانتے ہیں کہ کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی ہے ،مگر اس سے پہلے کیا تھا ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مختلف دور میں کئی ماہرین ،فلسفیوں اور مفکروں نے دینے کی کوشش کی ہے ۔1954ء میں پرنسٹن یونیورسٹی کے طالب علم Hugh Everett نے ایک بنیادی خیال پیش کیا تھا کہ ہماری کائنات سے مشابہ دوسری کائناتیں موجود ہوسکتی ہیں اور ان ساری کائناتوں کا ہماری کائنات سے تعلق بھی ہوسکتا ہے، وہ ہماری شاخ ہوسکتی ہیں۔ ان متوازی کائناتوں میں ہماری جنگوں کا انجام اس سے قطعی مختلف ہوسکتا ہے، جس سے ہم واقف ہیں بہت ممکن ہے کہ ہماری کائنات کی ناپید انواع دوسری کائناتوں میں ترقی کر گئی ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں انسان ناپید ہوچکے ہوں۔

کوانٹم درجہ اب تک دریافت ہونے والا ادنی تر درجہ ہے، کوانٹم طبیعیات کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 1900ء میں میکس پلانک نے یہ مفہوم پہلی مرتبہ علمی برادری میں پیش کیا، شعاعوں سے متعلق پلانک کی تحقیق ایسی دریافتوں پر منتج ہوئی جو روایتی طبیعیات کے قوانین سے متصادم تھی، ان دریافتوں نے اس کائنات میں روایتی قوانین سے قطعی مختلف قوانین کے وجود کی طرف اشارہ کیا جو انتہائی گہرائی میں کام کرتے ہیں۔

کوانٹم درجہ پر تحقیق کرنے پر طبیعیات دانوں نے دنیا کے حوالے سے عجیب امور اخذ کئے، اس درجہ پر موجود اجزاء اتفاقی طور پر مختلف صورتوں کے حامل تھے، مثال کے طور پر فوٹون (روشنی کے پیکٹ) ذرّے اور لہر دونوں طرح سے پیش آرہے ہیں۔ایک اور اہم بات جس پر ماہرین نے غور کیا کہ الیکٹرون کا کوئی معینہ مقام نہیں ہے، ذرے پر تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ ذرّہ ایک سے زائد مقامات پر ایک ہی وقت میں موجود ہوتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اربوں کے حساب سے متوازی کائناتیں وجود رکھتی ہیں۔ چناں چہ جب ذرّہ دوسرے مقام پر نظر آرہا ہوتا ہے تو اس وقت دوسری کائناتوں کے ذرے ہماری کائنات میں ایک نہ سمجھ آنے والے تعلق کے ذریعے ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک اور مثال تاریک مادّے کی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر اس کے تجاذب سے اسے پہچانا جاتا ہے اور جو کائنات کا نوے فی صد حصہ بھی ہے، ممکنہ طور پر یہ تاریک مادّہ متوازی کائناتوں میں بھی موجود ہے جو تجاذب کے اثر سے ہماری کائنات پر اثر انداز ہو رہا ہے، اسٹرنگ نظریہ کے مطابق یہ تاریک مادّہ متوازی کائناتوں کے درمیان منتقل ہوسکتا ہے۔

درحقیقت کئی راستے ہمیں متعدد کائناتوں تک لے جاتیں ہیں، صرف ا سٹرنگ نظریہ ہی نہیں، بلکہ ذرّے کی حرکت بھی جو ایک وقت میں کئی مقامات پر ہوسکتی ہے.۔ان دو راستوں کے علاوہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کائناتی مستقل ایک معینہ عدد پر ہی کیوں رک گئے ہیں جیسے کشش، گیسوں کے عمومی قوانین اور دیگر، ہوسکتا ہے کہ یہ مستقل دوسری دنیاؤں میں مختلف قدریں رکھتے ہوں، مثلاً لا متناہی ہوں ؟

اسٹرنگ نظریےکے بانی میشیو کاکو (Michio Kaku) کے مطابق جب ہم ایک کائنات کے وجود کی اجازت دیتے ہیں تو ساتھ ہی ممکنہ دوسری لامتناہی کائناتوں کے لئے بھی امکانات کے دروازے کھول دیتے ہیں، جہاں تک کوانٹم میکینکس کی بات ہے تو الیکٹرون کسی معینہ مقام پر نہیں ہوتا بلکہ مرکز کے گرد تمام ممکنہ مقامات پر ہوتا ہے، مگر کائنات الیکٹرون سے بھی چھوٹی تھی ( دھماکے یا بگ بینگ کے وقت) اور اگر ہم کوانٹم میکینکس کو تمام کائنات پر لاگو کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کائنات تمام متعدد اور ممکنہ حالتوں میں بیک وقت موجود ہوگی، اور یہ مختلف اور ممکنہ حالتیں ہی دراصل متعدد کائناتیں ہیں۔

میشیو کاکو کے علاوہ دیگر ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ کوانٹم نظریہ کو کائنات پر لاگو کرنے کا نتیجہ متعدد کائناتیں ہی ہوگا۔ممکنہ طور پر ان متعدد کائناتوں میں سے کچھ کائناتیں اس مرحلہ سے بھی گزری ہوں گی ،جس میں زندگی کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ہوگا، اور جب بھی کسی کائنات سے کوئی کائنات پیدا ہوتی ہے طبیعیاتی قوانین تھوڑے سے بدل جاتے ہیں۔اس طرح ایسی کائناتیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں جن میں طبیعیاتی قوانین عکسی ہوں۔ چناں چہ ان کا انجام فناء ہوگا۔ یعنی وہ فوراً ہی اپنے آپ میں ڈھیر ہوجائیں گی، ایسی کائناتوں کے تشکیل پانے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا جن میں غلط ابعاد ہوں۔ یقیناً کچھ کائناتوں کے طبیعیاتی قوانین درست ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ان میں ستارے اور سیاہ شگاف تشکیل پاسکتے ہیں ۔

ماہرین نے ایک ایسا خالی علاقہ دریافت کیا ہے، جس کا رقبہ اب تک دریافت ہونے والے تمام خالی علاقوں سے زیادہ ہے، یہ خالی علاقہ ہم سے تقریباً 8 ارب نوری سال دوری پر واقع ہے اور اس کا قطر ایک ارب نوری سال سے کم نہیں ہے، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ماہرین نے کائنات میں کوئی خالی علاقہ دریافت کیا ہے، ہم اب تک 30 ایسے ضخیم علاقوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کا رقبہ کئی ملین نوری سالوں پر محیط ہے، مگر حال ہی میں دریافت ہونے والا یہ خالی علاقہ نظر آنے والی کائنات سے بھی کہیں بڑا ہے، اتنا بڑا کہ عظیم دھماکے کو ماننے والے کو اس کی توجیہ بیان کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اس کی مناسب توجیہ بیان کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ علاقہ ایک دوسری کائنات کا نشان ہے جو ہماری کائنات کی دیوار کو دبائے ہوئے ہے۔ ساؤٹھ کیر یونیورسٹی کی تحقیق کار لورا کا کہنا ہے کہ علمِ کونیات اس جیسے ضخیم خلاء کی توجیہ بیان نہیں کر سکتا۔

کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ خالی علاقہ ہماری کائنات کے بننے کے ابتدائے دور میں اس کی پڑوسی کائنات سے ٹکرانے کے نتیجہ میں تشکیل پایا ہے، جب ہماری پڑوسی کائنات ہماری کائنات کے اس حصہ سے ٹکرائی تو اس نے سارے مادّے کو اس علاقہ سے ادھر ادھر دھکیل دیا اور اس طرح وہ علاقہ خالی ہوگیا یا اس میں انتہائی کم کائناتی اجسام رہ گئے۔

اگر یہ درست ہوا تو پہلے سے دستیاب متعدد کائناتوں کے نظریاتی ماڈلوں سے مشابہ یہ پہلا تجرباتی ثبوت ہوگا ساتھ ہی یہ ا سٹرنگ نظریے کی بھی دلیل ثابت ہوسکتا ہے، کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر متعدد کائناتی نظریہ درست ہے تو ایسا ہی ایک مشابہ خلاء شمالی کرۂ ارض کے آسمانی علاقے میں ہونا چاہیے۔ماہرین فلکیات کے درمیان کرائی گئی ایک رائے شماری کے مطابق 60 فی صد ماہرین کا خیال ہے کہ متوازی کائنات کا نظریہ درست ہے۔