• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنالوجی کی دنیا کو وسیع کرنے کے لیےاور جدت سے بھر پور نت نئی چیزیں منظر ِعام پر لانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں کوشش کررہے ہیں، اس ضمن میں اب تک لوگوں کی آسانی کے لیے متعدد چیزیں تیار کی جاچکی ہیں، ان میں سے چند کے بارے میں ذیل میں بتایا ہے۔

روشنی سے زیادہ تیز رفتار

سوئزر لینڈ میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے گذشتہ سال ستمبر میں کیے جانے والے سائنسی انکشاف کوٹھوس انداز میں پیش کرنے کے لیے مزید تجربات سے گذارا، ان کی تحقیق کے مطابق بعض غذائی اجزاء روشنی کی رفتار سے کچھ تیز رفتار پرسفر کرسکتے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ دوبارہ کیے جانے والے تجربات سے بھی وہی نتائج حاصل ہوئے ہیں جو اس سے قبل حاصل ہوئے تھے۔ اگر اس انکشاف کی تصدیق دوسروں نے بھی کردی تو یہ جدید طبیعات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی۔ 

جدید طبیعات جو کہ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر کھڑی ہے اس کی بنیاد غلط ثابت ہوجائے گی۔ امریکا میں اور جاپان کے سائنس داںان انکشاف پر مزید تحقیق کر رہے ہیں۔

اسمارٹ ہتھیار

سیکورٹی اور دفاع کے میدان میں کام کرنے والے اداروں کو دشمن فوجیوں یا پناہ گاہ میں چھپے باغیوں کو ہلاک کرنے میں مسئلہ پیش ہوتا ہے، اگروہ نظر کے سامنے نہ ہوں تو ان کو ہلاک کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ امریکی فوج نےرائفل کی ایجاد کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیا ہے جوکہ ریڈیو کنٹرول گولیوں سے فائر کرتی ہے ۔ رائفل میں ایک لیزر رینج فائٹرز نصب ہے جوکہ ہدف سے فاصلہ کی پیمائش کرلیتا ہے۔ 

یہ رکاوٹ کے تین میٹر تک کے فاصلے کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے فائر کرنے پر گولی (ایئر برسٹ کی صورت میں) ہدف کے پاس یا ہدف سے کچھ فاصلے پر جاکر ہدف کو ہلاک کردیتی ہیں۔ یہ خصوصی رائفل گرینیڈ لانچر کی طرح عمل کرتی ہے، جس میں دھماکے کے اصل مرکزپرانتہائی دھماکہ خیز راؤنڈ کے ساتھ کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 

اس کے راؤنڈ میں ایک چپ لگی ہوتی ہے، جس کے ذریعے رائفل کے گن ساکٹ سے ایک سگنل بھیجا جاتا ہے جوکہ مطلوبہ جگہ پر جاکر پھٹ جاتا ہے۔ اس قسم کے اسمارٹ اسلحے کی تیاری جدید ماؤکرو چپ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

قابل تجدید توانائی

جیسے جیسے ایندھن کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے موسم کی صورتحال میں تبدیلی آرہی ہے ویسے ہی دوبارہ استعمال کے قابل توانائی کے ذرائع کی تلاش میں تیزی آرہی ہے ۔ شمسی یا ہوائی توانائی کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ اس کی مستقل فراہمی کو ممکن بنانا ہے، کیوں کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اور اکثر ہوا کی رفتار دھیمی پڑجاتی ہے۔ اس دوران بیٹری میں توانائی کو ذخیرہ کرنے کے نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس حوالے سے توانائی کے بڑے ذخائر اور گرڈ سسٹم کو توانائی کی فراہمی کا مسئلہ ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ میٹریل سائنس اینڈ انجینئرنگ، اسٹین فورڈ یونیورسٹی کےپروفیسر نے مالیکیول سے اس مسئلے کا ایک دلچسپ حل تلاش کیا ہے۔ ماہرین نے ایک سستا، کارکردگی میں بہتر اور بیٹریز میں لگائے جانے کے قابل ایک نیا ہائی پاور الیکٹروڈ تیار کیا ہے جو کہ گرڈ سسٹم کے لیے بڑی تعداد میں بجلی کا ذخیرہ کرسکتا ہے۔

موجودہ بیٹریاں ان میں موجود الیکٹروڈ میں آئن کی حرکت سے پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ یہ نئے الیکٹروڈ (نینو پارٹیکل سے بنائے گئے) اسٹینفورڈ کے محققین نے تیار کیے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے الیکٹروڈ کی کھلی ساخت تشکیل دی ہے جوآئن کو بغیر کسی نقصان کے اندر باہر حرکت فراہم کرتا ہے۔ 

کھلی ساخت کی وجہ سے آئن الیکٹروڈ سے اندر اور باہرآزادانہ اور تیزی سے حرکت کرتے ہیں ،جس سے بیٹری تیزی سے چارج اور ڈسچارج ہوجاتی ہے۔ الیکٹروڈ کے استعمال کے حوالے سے ہائی وولٹیج کیتھوڈز ایک حیران کن مواد ہیں۔ اب سائنس دان اس کے ساتھ کا اینوڈ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ مکمل بیٹری استعمال کے لیے تیار کی جاسکے۔

کوانٹم ڈاٹس: مستقبل کے شمسی سیلز

شمسی سیل سورج سے توانائی حاصل کرکے بجلی بناتے ہیں۔ سورج کی روشنی فوٹون کی شکل میں ہوتی ہے۔ فوٹون شمسی سیل میں موجود الیکٹران کو تحریک دے کر اس کے مرحلے کے توانائی کی سطح پر بھیج دیتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں اس مواد میں الیکٹران کا بہاؤ عمل میں آتا ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے۔ 

یہ تیار ہونے والی بجلی ڈائرکٹ کرنٹ کی شکل میں ہوتی ہے ،جس سے بلب اور دوسرے بجلی کے آلات چلائے جاسکتے ہیں ۔بازار میں دستیاب شمسی سیل عام طور پر سیلون کے کرسٹل سے بنائے جاتے ہیں ، جس کی کارکردگی 18 سے 14 فی صد تک ہوتی ہے ۔ اب جدید شمسی سیل جن کو دوسرے مواد سے تیار کیا گیا ہے کہیں زیادہ کارکردگی کے حامل ہیں۔

چنانچہ اس حوالے سے دو اہم تحفظات ہیں، ایک وہ اس قیمت جس پر شمسی سیل تیار کیے جائیں اور ان کی کارکردگی میں اضافہ ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدید ترین پیش رفت کوانٹم ڈاٹس شمسی سیل ہیں جن کو چھتوں یا کھڑکیوں پر اسپرے کرکے پھیلا دیا جاتاہے ۔کوانٹم ڈاٹس شمسی سیل انتہائی باریک ذرّات (نینوپارٹیکل) کے بنے ہیں جو کہ نیم موصل (Semi Conductor) ہیں۔ 

ان کو انتہائی سہولت سے کھڑکیوں اور چھتوں پر رنگ کی طرح اسپرے کردیا جاتاہے اور مہنگے اور پیچیدہ شمسی سیل کی تنصیب کی کوئی ضروت نہیں رہتی ۔ ابتداء میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے نامیاتی مواد سے نینو پارٹیکل تیار کیے تھے ،مگر اب ٹورنٹو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسے مزید مستعد کوانٹم ڈاٹس دریافت کرلیے ہیں جن کو غیرنامیاتی اجزاء سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان شمسی سیل سے چھ فی صد کارکردگی کا ورلڈ ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے ۔ امید ہے کہ جلد ہی ان سیلز کی تجارتی پیمانے پر تیاری شروع کردی جائے گی ۔

روبوٹ والے نئے سوٹ

امریکی فوجیوں کو ایک جدید ترین جنگی لباس میسر آیا ہے جو کہ ان کو غیر معمولی طاقت اور رفتارمہیا کرے گا۔یہ امریکی دفعائی ایجنسی ڈارپا کی ایک دہائی پر مشتمل کوششوں کا نتیجہ ہے۔،جس منصوبے کا نام Exoskeleton for Human Performance Augmentationہے کے تحت مختلف قسم کے بیرونی جسمی ڈھانچے تیار کیے جا رہے ہیں، جو کہ فوجیوں کی طاقت اور رفتار میں اضافہ کریں گے۔ اس تحقیق کی ایک اور کامیاب ایجاد Wearable Energetically Autonomous Robot Wear)ہے۔ اب اس پہناوے کو فیول سیل کے ذریعے طاقت فراہم کی جارہی ہے، جس سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

مصنوعی ذہانت کا مایوس کن پہل

کیا مصنوعی ذہانت کسی دن ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گی؟ خود سے ارتقاء پذیر ہونے والی مشین جن کے اندر دوسری مشینوں کو اپنے سے زیادہ بہتر بنانے کی صلاحیت ہوگی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ کو الیکٹرانک شطرنج کھیلتے ہوئے حیرت ہوئی ہو کہ یہ مشین کس قدر ذہین ہے اور یہ کس طرح اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے آپ کو شکست دے دیتی ہے۔

اس وقت جو روبوٹس موجود ہیں وہ عام سے امور مثلاً آپ کے گھر کی صفائی اور آپ کی سادہ ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن اب جدید روبوٹس میں زیادہ پیچیدہ نظام مربوط کر دیا گیا ہے یہ روبوٹس تیراکی کرتے ہوئے شخص کے متعلق یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ ڈوبنے والا ہے اور لائف گارڈ کی طرح مدد کر تے ہیں اس کے علاوہ سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے یہ ڈرائیورکو اس بات سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ آگے ٹریفک پھنسا ہوا ہے۔

محققین اس حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ دن دور نہیں ہے جب مصنوعی ذہانت کی ”وحدانیت“ یا ”Singularity“ تخلیق ہوجائے گی اور یہ زنجیری تعامل Chain Reactionکے قابو سے باہر نکل جائے گا۔ اس کے بعد ایک مشین خود دوسری بہتر مشین تیار کرنے لگے گی۔

باتیں کرنے والی کاریں...تصادم سے بچاؤ

ہر سال بڑی تعداد میں دھند اور کہر کی موسم میں راستہ نظر آنے والی وجہ سے گاڑیوں کے ٹکراؤ کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اب یونیورسٹی Bologna اٹلی کے سائنس دانوں نے اس کا حل تلاش کرلیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے، جس کی مدد سے کاریں کسی حادثات کی صورت میں پیچھے آنے والی گاڑیوں کو پیغام دیں سکیں گی۔ یہ وارننگ سسٹم کار میں نصب خاص Motion Sensors کی وجہ سے حرکت میں آئے گا جو حادثہ کی صورت میں اس کی شناخت کرلیں گے۔ 

ایک جاپانی کمپنی لاس اینجلس میں اس نظام کا سڑکوں پر جائزہ لے رہی ہے۔یورپ میں ذہین گاڑیوں Intelligent Car کے پروگرام کے آغاز کا مقصد جدید وائرلیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سفر کو محفوظ بناتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ میں وقت کافی 42صد حصہ ٹریفک کے اژدھام میں ضائع ہوتا ہے۔ اس نظام کی مدد سے گاڑیوں کو سڑکوں پر راستہ بند ہونے اور سڑک پر کوئی بھی مسئلے سے متعلق قبل از وقت اطلاع فراہم ہوجائے گی۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید