• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توانائی کے نت نئے طریقوں کی تلاش اور انسانیت کا مستقبل

انسانی تہذیب ہمیشہ توانائی کے نئے ذرائع کی متلاشی رہی ہے، کیوں کہ توانائی ترقی، بقا، اور تمدن کے ارتقا کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ موجودہ دور میں فوسل فیول، نیوکلیئر انرجی، اور قابل تجدید توانائی ذرائع جیسے شمسی، ہوائی، اور جیو تھرمل توانائی پر تحقیق ہو رہی ہے لیکن زمین کے وسائل محدود ہیں۔ جیسے جیسے انسان کی توانائی کی طلب بڑھتی جا رہی ہے، مستقبل میں ہمیں دیگر سیاروں یا خلا میں توانائی کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔

’’ایئر ملین‘‘ (Year Million) جیسے سائنسی تصورات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی دوسرے سیاروں، چاندوں یا یہاں تک کہ دوسرے ستاروں سے توانائی حاصل کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہے، تو کن سائنسی، تکنیکی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟ دیکھنا یہ کہ زمین سے باہر توانائی کے ذرائع کی تلاش کن کن طریقوں سے ممکن ہو سکتی ہے اور یہ ہمارے مستقبل کو کیسے متاثر کرے گی۔

زمین پر توانائی کے بڑھتے ہوئے مسائل

دنیا میں توانائی کی کھپت روز بروز بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں توانائی کے بحران کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔فوسل فیول (کوئلہ، تیل، اور گیس) صدیوں سے توانائی کا بنیادی ذریعہ رہا ہے، لیکن یہ وسائل محدود ہیں اور تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ ٔحرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔

شمسی، ہوائی اور دیگر قابل تجدید ذرائع اُمید کی کرن ہیں، لیکن یہ ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب نہیں ہوتے۔ نیوکلیئر انرجی ایک اور ممکنہ حل ہےلیکن اس کے خطرات اور ریڈیو ایکٹیو فضلے کا مسئلہ اسے ایک محدود آپشن بنا دیتا ہے۔ دنیا بھر میں صنعتوں، نقل و حمل اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے ساتھ توانائی کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی آبادی میں اضافے کے باعث یہ دباؤ مزید بڑھے گا، جس کے نتیجے میں زمین پر توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ناگزیر ہو جائے گی۔

زمین سے باہر توانائی کے امکانات

جب زمین کے وسائل ناکافی ہو جائیں گے، تو انسان کو خلا میں توانائی کے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ کئی سائنسی نظریے اور منصوبے اس پر کام کر رہے ہیں۔ سورج توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہےلیکن زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں، رات کے وقت اور کرہِ ہوائی کی مداخلت کے باعث یہ ہمیشہ موثر نہیں رہتی۔

اگر خلا میں شمسی توانائی کے بڑے سیٹلائٹس نصب کر دیے جائیں، تو وہ مسلسل توانائی حاصل کر سکتے ہیں اور اسے مائیکرو ویوز یا لیزر کی شکل میں زمین پر منتقل کر سکتے ہیں۔ چاند کی سطح پر ایک نایاب عنصر ہیلیئم-3 پایا جاتا ہے، جو نیوکلیئر فیوژن کے لیے ایک ممکنہ ایندھن ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اس عنصر کو چاند سے نکال کر زمین پر لا سکیں تو یہ توانائی کا ایک محفوظ اور کارآمد ذریعہ بن سکتا ہے۔

مشتری اور زحل کے چاندوں پر توانائی کے ذخائر

مشتری اور زحل کے چند چاندوں پر برف کی تہیں اور ہائیڈرو کاربنز (میتھین، ایتھین) کی جھیلیں موجود ہیں، جو توانائی کے قیمتی ذرائع ثابت ہو سکتے ہیں۔ توانائی کے بڑے ذخائر، مستقبل میں خلا میں بستیاں بسانے کے لیے موزوں ہوگا۔

خلا میں Dyson Sphere کی تعمیر

مشہور سائنسدان فری مین ڈائسن نے ایک نظریہ پیش کیا تھا کہ ایک ’’ڈائسن اسفیئر‘‘یعنی ایک بڑا شمسی توانائی کا دائرہ کسی ستارے کے گرد تعمیر کیا جا سکتا ہے جو اس کی مکمل توانائی حاصل کرےاور بے پناہ توانائی کی دستیابی ممکن بنائے۔

ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر

خلا میں توانائی کے ذرائع تلاش کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی درکار ہوگی، جس میں روبوٹک کان کنی، خلائی بیسڈ شمسی توانائی کے سیٹلائٹس اور فیوژن ری ایکٹرز شامل ہیں۔ اگر ہمیں خلا سے توانائی کے وسائل حاصل کرنے ہیں، تو ہمیں چاند، مریخ اور دیگر سیاروں پر مستقل اڈے بنانے ہوں گے۔ 

یہ ممکنہ طور پر زمین کے توانائی بحران کا بہترین حل ہو سکتا ہے۔ زمین سے باہر توانائی کے حصول کے دوران کئی اخلاقی اور ماحولیاتی چیلنجز سامنے آئیں گےجیسے کہ خلا میں کان کنی کے اثرات، خلا میں کچرے کا بڑھنا اور دیگر سیاروں کی حیاتیات (اگر موجود ہوں) پر ممکنہ خطرات۔

جیسے جیسے زمین کے توانائی کے وسائل کم ہو رہے ہیں، ویسے ویسے خلا میں توانائی کے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ شمسی توانائی کے خلائی سیٹلائٹس، چاند پر ہیلیئم-3 کی کان کنی، مشتری اور زحل کے چاندوں کے وسائل اور ڈائسن اسفیئر جیسے نظریات انسانیت کے توانائی کے مسائل کے ممکنہ حل پیش کرتے ہیں۔ 

خلا میں توانائی کے نئے ذرائع کی تلاش کا خواب سائنسی ترقی کے ساتھ مزید حقیقت کے قریب آ رہا ہے۔ جدید نظریات، تحقیقاتی پیش رفت اور ممکنہ چیلنجز انسانیت کے مستقبل میں توانائی کے حصول کے لیے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔

کوانٹم انرجی اور زیرو پوائنٹ انرجی

جدید طبیعیات کے کچھ نظریات توانائی کے ایسے ذرائع کی نشاندہی کرتے ہیں جو روایتی تصور سے بالکل مختلف ہیں۔

زیرو پوائنٹ انرجی

کوانٹم فزکس کے مطابق، خلا مکمل طور پر خالی نہیں بلکہ توانائی سے بھرا ہوتا ہے، جسے ’’زیرو پوائنٹ انرجی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ہم اس توانائی کو استعمال کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کر لیں تو یہ ایک لامحدود اور مسلسل توانائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہر جگہ موجود، لامحدود توانائی کا امکان ہوگا۔موجودہ سائنس میں اس کا قابلِ عمل استعمال ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے۔

کوانٹم بیٹریز اور سپر کنڈکٹرز

کوانٹم ٹیکنالوجی میں جدید بیٹریز اور سپر کنڈکٹرز ایسے توانائی کے ذخائر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جو توانائی کے ضیاع کو کم کر سکیں گے۔سپر کنڈکٹرز بجلی کی ترسیل میں توانائی کے ضیاع کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ کوانٹم بیٹریز روایتی بیٹریز سے کہیں زیادہ توانائی ذخیرہ اور تیزی سے فراہم کر سکتی ہیں۔

ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر سے توانائی کا حصول

کائنات میں موجود توانائی کی 68 فی صد مقدار ’’ڈارک انرجی‘‘ پر مشتمل ہے، لیکن ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کے مطابق، اگر ہم ڈارک انرجی کے میکینزم کو سمجھ لیں، تو یہ توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈارک انرجی پر تحقیق جاری ہے اور مستقبل میں اس کے استعمال کے طریقے دریافت ہو سکتے ہیں۔ موجودہ سائنسی علم میں ڈارک انرجی کی نوعیت اور اس کے حصول کے طریقے نامعلوم ہیں۔

اینٹی میٹر انرجی سب سے طاقتور ممکنہ ذریعہ

اینٹی میٹر وہ مادہ ہے جو عام مادّے کے بالکل الٹ ہوتا ہےاور جب یہ مادّے سے ٹکراتا ہے، تو انتہائی زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ مستقبل میں بین السیاروی سفر کے لیے اینٹی میٹر ایک ایندھن کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ ایک گرام اینٹی میٹر سے لاکھوں میگا واٹ توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

بین السیاروی توانائی نیٹ ورک

جیسے زمین پر بجلی کے گرڈ موجود ہیں، مستقبل میں خلا میں توانائی کی ترسیل کے لیے ایک عالمی توانائی نیٹ ورک بنایا جا سکتا ہے۔ اسٹارلِنک جیسے نیٹ ورکس کی طرز پر شمسی توانائی حاصل کرنے والے ہزاروں سیٹلائٹس خلا میں تعینات کیے جا سکتے ہیں جو مسلسل زمین پر توانائی بھیجیں گے۔

بین السیاروی وائرلیس پاور ٹرانسمیشن

نینوٹیکنالوجی اور لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے توانائی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ وائرلیس طریقے سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔

بایو انرجی میں جدید تحقیق

جانداروں کے فضلے اور نامیاتی مادّے سے توانائی حاصل کرنے کے طریقے بہتر ہو رہے ہیں۔ مصنوعی حیاتیاتی نظام ایسے بیکٹیریا تیار کر رہے ہیں جو بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔مثال: ’’الیکٹرک بیکٹیریا‘‘جو اپنی خوراک سے براہ راست بجلی پیدا کرتے ہیں۔

ماحولیاتی اثرات

خلا میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبے، جیسے ڈائسن اسفیئر، کائناتی ماحول پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ خلائی کچرا (Space Debris) بڑھنے سے دیگر سیٹلائٹس اور خلائی مشنز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جیوتھرمل توانائی کی نئی جہتیں

زمین کے اندرونی حصے میں انتہائی زیادہ توانائی موجود ہے اور جدید ڈرلنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے گہرائی میں جا کر اس توانائی کو حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مثال: ’’ڈیپ ڈرلنگ جیوتھرمل پلانٹس‘‘ جو زمین کے گرم ترین حصوں سے توانائی کھینچ سکتے ہیں۔

ماحولیاتی اور سماجی اثرات

اگرچہ خلا میں توانائی کے حصول کے منصوبے انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں لیکن ان کے کچھ منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

توانائی کا مستقبل انسانیت کا نیا دور

جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، ہم توانائی کے حصول کے ایسے ذرائع کی طرف بڑھ رہے ہیں جو آج کے دور میں ناممکن لگتے ہیں۔ کوانٹم انرجی اور زیرو پوائنٹ انرجی مستقبل میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ممکنہ حل بن سکتے ہیں۔ ڈارک انرجی اور اینٹی میٹر توانائی کے سب سے زیادہ مؤثر ذرائع ثابت ہو سکتے ہیں۔

بین السیاروی توانائی نیٹ ورک زمین اور دیگر سیاروں کے درمیان توانائی کی ترسیل کا ایک نیا نظام قائم کر سکتا ہے۔ اگر انسانیت ان مسائل کو حل کر لیتی ہے، تو ’’ائیر ملین ‘‘کے دور میں توانائی کی کوئی کمی نہیں ہوگی، اور ہم نہ صرف زمین بلکہ پورے نظام شمسی میں اپنے لیے نئی دنیا بسا سکیں گے۔

اگرچہ یہ نظریات آج کے دور میں سائنسی فکشن محسوس ہوتے ہیں لیکن مستقبل میں ان پر تحقیق اور ترقی ممکن ہے۔ اگر ہم خلا میں توانائی کے ذرائع تلاش کر لیں، تو یہ نہ صرف زمین بلکہ دیگر سیاروں پر انسانی زندگی کے امکانات کو بھی بڑھا دے گا اور ہمیں ایک حقیقی ائیر ملین کے مستقبل کی جانب لے جائے گا، جہاں توانائی کی کمی کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید