دائرے کے آبلہ پا مسافر

September 29, 2022

’موت کے کنویں‘ میں75 سال مسلسل موٹر سائیکل چلا نے والے کمال سادگی سے سوال کرتے ہیں ’ہمیں منزل کیوں نہیں ملی، دوسرے آگے کیوں نکل گئے، ہم وہیں کے وہیں کیوں ہیں؟‘

بات یہ ہے کہ حرکت میں سفر کا دھوکا ہے، سو ہمیں بھی گمان ہے کہ ہم حالتِ سفر میں ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔ دائرے میں چلنے والے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وہ آ رہے ہیں یا جا رہے ہیں، منزل ان کے سامنے ہے کہ پیچھے۔ بے سمتی سی بے سمتی ہے، رائیگانی سی رائیگانی ہے۔

اسحاق ڈارواپس آئے تو بہت سی باتیں یاد آ گئیں، ابھی کل کی بات ہے اسحاق ڈار کا گھر قرق کیا جا رہا تھا، ان کے ملازم کو ایک ایجنسی اٹھا کر لے گئی تھی، اس پر اسحاق ڈار کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے تشدد کیا گیا تھا۔ آج انہی کی کلیئرنس کے بعد اسحاق ڈار واپس آ گئے ہیں۔ ڈار صاحب سے جلا وطنی کے دوران سوال کیا گیا کہ طاقت ور لوگ آپ کے خلاف کیوں ہو گئے تھے، انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے بجٹ سے زیادہ حصہ مانگتے تھے، میں نے معذرت کی اور پھر مجھے ’جرأتِ انکار‘ کی سزا دی گئی۔اب وہی طاقت ور لوگ اسحاق ڈار سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ معیشت میں نئی روح پھونکیں۔ ڈار صاحب کے لیے یہ ’چکر‘ نیا نہیں ہے، وہ اس سے پہلے بھی ایک بار جلا وطنی سے واپسی پرخزانہ کا قلم دان سنبھال چکے ہیں۔ دائروں میں چلنے والوں کے پیروں کے آبلے دیکھ کر نہ ہنسی آتی ہے نہ رونا۔

اسحاق ڈار تو بس ایک استعارہ ہیں، یہ ملک سات دہائیوں سے ایک دائرے میں میراتھن ریس دوڑ رہا ہے، اس میں کیا حیرت کہ اب پائے مملکت سے خون رس رہا ہے مگرمنزل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنی 75سال پہلے تھی۔ ہم نے آزادی کے نو سال بعد آئین بنایااور دو سال بعد ہی 1958 میں توڑ دیا، پھر ہم نے 1962میں آئین بنایا اور 1969میں توڑ دیا، پھر1973میں آئین بنایااور 1977 میں توڑ دیا، پھر 1985میں آٹھویں ترمیم کی اور غیر جماعتی الیکشن کروایا، 1988میں جماعتی الیکشن کروایا اور 1997میں آٹھویں ترمیم سے نجات حاصل کی تو 1999میں مارشل لا لگ گیا، پھر جمہوریت کی طرف آئے اور 2010میں اٹھارویں آئینی ترمیم سے آئین کو ڈکٹیٹرز کی چھیڑ خانیوں سے پاک کیا،اب کچھ دنوں سے ایک طاقت ور لابی اٹھارویں ترمیم کے خلاف متحرک ہے، اور صدارتی نظام کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔دائرے میں گردش کرنے والے سو برس بھی چلتے رہیں تو وہیں کے وہیں رہتے ہیں، منزل سے اتنے ہی دور جتنے پہلے دن تھے۔ذرا گہری نظر ڈالیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ سب شاخسانے ایک ہی خواہش کے ہیں یعنی اکثریت کو حکومت نہیں کرنے دینی خواہ اس میں ملک دو لخت ہو جائے، بات یہ ہے کہ جب عوام کو طاقت ور ہونے کا احساس ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے وسائل کی منصفانہ تقسیم پر اصرار کرتے ہیں اور یہی مسئلے کی جڑ ہے، نتیجتاً کروڑوں لوگ ہیں، ایک دائرہ ہے، اور مسلسل زیاں کا عالم ہے۔

جب سے پاکستان بنا ہے سیاست دانوں کا احتساب ہو رہا ہے، کبھی پروڈا، کبھی ایبڈو اور کبھی نیب، 75 سال سے قوم کو سیاست دانوں کی کرپشن کے قصے سنائے جا رہے ہیں، ایک نہ ختم ہونے والا دائرہ۔ہائی برڈ حکومت کے دوران یہ مہم مزید شدت اختیار کر گئی، ڈیجیٹل دنیا میں ففتھ جنریشن وار کا ڈول ڈالا گیا، میڈیا کا ٹینٹوا پکڑ کر دن رات ’چور چور‘ کی گردان کی گئی، نفرت کے سوداگروں نے کامیابی سے معاشرے کو کلہاڑی سے کاٹ بانٹ دیا۔عام لوگوں کو تو چھوڑیے، عمران خان کہتے ہیں کہ مجھے تو نواز شریف کی کرپشن کی ضخیم فائلیں دکھائی گئی تھیں ، کچھ باوردی صحافی بھی یہی کہانی سناتے ہیں۔ 75 سال سے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن پر فائلیں بن رہی ہیں ، جسے کبھی وائٹ پیپر کہتے ہیں اور کبھی والیم ٹین، سب کی سب بے بنیاد الزامات کی پٹاریاں جو آج تک کسی عدالت میں ثابت نہ ہو سکیں۔بہرحال، یہ شکستہ پائی بھی ہمارا حوصلہ نہیں توڑ سکی، اور ہم آج بھی دائرے میں بگٹُٹ دوڑ ے چلے جا رہے ہیں۔ آج بھی وزیرِ اعظم ہائوس کی گفت گو ٹیپ کی جا رہی ہے، اورریکارڈنگ کے وہ حصے مشتہر ہورہےہیں جن سے سیاست دانوں پر کیچڑ اُڑانے میں کچھ مدد مل سکے۔ اُدھر عمران خان جس طرح ان آڈیوز کی اگلی قسط کے مواد کا ذکر کر رہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ سب شرارت ان کے ’دوست‘ نے کی ہے۔

ویسے شہباز شریف کی آڈیو سے یہ تو پتا چل گیا کہ وہ قواعد و ضوابط نرم کرنے کے بھی روادار نہیں ، کاش اب عمران خان کے دفتر کی بھی کوئی آڈیو ریلیزہو جائے تاکہ موازنہ تو ہو سکے، کوئی ایسی آڈیو جس میں عارف نقوی کے مالی احسانات کا بدلہ عوام کے اربوں روپے سے چکانے کا حکم دیا جا رہا ہو، یا برطانیہ سے ملنے والے 190 ملین پائونڈ کسی کو تحفہ مل رہے ہوں، کسی گوگی کا ذکرِ خیر ہو رہا ہو، یا عظمیٰ باجی کو لیہ میں پنجاب حکومت کی ستر کروڑروپے مالیت کی زمین اونے پونے بیچنے کا حکم دیا جا رہا ہو، وغیرہ وغیرہ۔اور پھر وہ دن تو پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دن قرار پائے گا جب دیگر دفاتر کی بھی اسی طرح آڈیو ریلیز ہو گی، اللہ اکبر، اس روز یقیناً قوم کو سیاست دانوں سے پیار ہو جائیگا، اور شاید یہ دائرے کا سفر بھی تمام ہو جائے۔