ڈیزائننگ ہر طرف

October 05, 2022

جیمز ویب دوربین کے خلا میں جانے کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی پر بات چیت شروع ہوگئی ہے ۔ایک بڑی تعداد اگرچہ آج بھی یقین رکھتی ہے کہ انسان چاند پہ کبھی نہیں اترا ،وہ تو سب امریکی ڈرامہ تھا ۔گروپس میں خلا، سائنس اور کائنات کے بارے میں سوال جواب جاری ہیں ۔

سائنسدان جب اس دنیا کو دیکھتے اور اس پہ اپنی رائے دیتے ہیں تو سب سے زیادہ جس چیز کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں‘ وہ زندگی ہے۔ ایک زندہ چیز ایسا عجوبہ ہے کہ وہ ششدر رہ جاتے ہیں ۔ اپنی مشہور دستاویزی فلم into the universe with Stephen Hawkingمیں ہاکنگ کہتاہے کہ کائنات‘ اگرزندگی کو جنم دے سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اصل میں زندہ چیزیں بھی ہائیڈروجن اور کاربن جیسے انہی عناصر سے بنی ہیں‘ جن سے مردہ چیزیں بنی ہیں۔ ہائیڈروجن‘ کاربن اور آکسیجن وغیرہ ایک ساتھ کہیں پڑی ہوں‘ جیسا کہ دنیا میں ہر کہیں یہ عناصر بکھرے ہوئے ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں‘ لیکن ان میں سے کچھ آپس میں مل کر ایک زندہ چیز کی حیثیت اختیار کر جائیں تو یہ بہت زیادہ حیرت انگیز بات ہے۔

مغربی سائنسدان اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں تو یہ کائنات خود بے جان ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سورج نہ ہوتا تو زمین پہ زندگی نہ ہوتی ۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ یہ سورج سات لاکھ بیس ہزار کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہا ہے لیکن سورج اور دوسرے ستارے تو خود بے جان ہیں ۔ ستارہ ایک بہت بڑی چیز ہوتاہے‘لیکن اس میں دماغ نہیں ہوتا‘ نروز نہیں ہوتے‘ خون کی شریانیں نہیں ہوتیں‘ ہڈیاں‘ کھوپڑی اور ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ بڑے بڑے ستاروں سے لے کر بلیک ہولز تک سب اجرامِ فلکی انسان کی طرف سے اپنا نام رکھے جانے کے محتاج ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ستارے نے آنکھیں کھول کر اپنا مدارخود مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔

پھر کائنات کے فیصلے کون کر رہا ہے؟کبھی کوئی نہیں بتا سکا کہ یہ والا جو ستارہ ہے‘ یہ عقل رکھتا ہے اور یہ کائنات کے فیصلے کر رہا ہے۔اسٹیفن ہاکنگ یہ تو کہتاہے کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے‘ لیکن یہ کائنات ہے کون؟ یہی سوال حضرت ابراہیم ؑ کو درپیش تھا ۔ سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھ کر وہ سوالات اٹھا تے رہے اور خالق تک پہنچ گئے ۔ سوال آپ کو خدا تک لے جا سکتاہے ، اگر آپ کی ذاتی انا اور انسانی آزادیوں کے بے کنار ہونے کی خواہش راہ میں حائل نہ ہو ۔ تعصبات جب غالب ہوں تو علوم تک رسائی کے باوجود آپ ہدایت نہیں پا سکتے ۔

یہی صورتِ حال سیاروں کی ہے۔ مختلف سیاروں میں مختلف قیمتی عناصر موجود ہیں‘ لیکن انسان تو کجا‘ ایک چیونٹی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ہر طرف resourcesبکھرے ہوئے ہیں۔ کوئی انہیں استعمال کرنے والا نہیں؛حتیٰ کہ کوئی ان عناصر کا نام رکھنے والا بھی نہیں ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انسان اس قابل ہو گیا کہ وہ چیزوں کے نام رکھنے لگا۔ اس نے جان لیا کہ بے جان چیزوں کی طرح جاندار بھی انہی عناصر سے مل کر بنے ہیں ۔

لوگ ڈارون کے نظریہ ء ارتقا کو غلط کہتے ہیں‘ جس کے تحت چمپینزی اور نی اینڈرتھل مین (Homo Neanderthal)کو انسان کا فرسٹ کزن مانا جا سکتاہے؛حالانکہ حیاتیاتی طور پر انسان اور بھینس میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ جلد سے لے کر گردے‘ پھیپھڑے اور دل تک‘ سبھی کچھ انہی اصولوں پہ کام کر رہا ہے‘ اسی طرح کی آنتیں ہیں‘ اسی طرح کا جگر۔ ڈارون نے اس کے سوا اور کچھ بھی observe نہیں کیا کہ زمین کے بدلتے ہوئے حالات میں زندہ چیزوں میں تبدیلیاں پیدا ہوتی رہیں (اور حتیٰ کہ انسان وجود میں آگیا)۔

لیکن دوسری طرف انسان؛ چونکہ ہر چیز کی گہرائی میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتاہے اور وہ خوردبین کے عدسوں سے ایک ایک خلیے کو بھی چھان پھٹک چکا ہے‘ تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ آخری درجے کی نفاست کے ساتھ کسی نے ہمیں ڈیزائن کیا ہے۔ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی نے جانداروں کے جسم میں nerves بچھائیں‘تا کہ اس کے ایک ایک حصے میں ذرا برابر تکلیف؛ حتیٰ کہ چیونٹی کے کاٹنے کا درد بھی پلک جھپکنے میں دماغ تک پہنچے۔ یہی صورتِ حال زخم لگنے کی ہے۔ جیسے ہی زخم لگتا اور خون رستا ہے‘ ایک نظام متحرک ہوتاہے اور خون خود ہی جم کر زخم کا منہ بند کر دیتا ہے۔ یہی صورتِ حال دماغ کے بلڈ برین بیرئیرمیں ہے۔ اس سسٹم کے تحت سختی اور باریکی کے ساتھ خون کو چھان کر انتہائی ضروری مواد ہی دماغ تک جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ڈیزائننگ ہر طرف ہے ۔ ایک گرافک ڈیزائنر سے کہیں کہ آپ کی تصویر میں منہ اوپر اور ناک نیچے کر دے۔ آپ کی زندہ رہنے کی صلاحیت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوگا لیکن چہرہ انتہائی بھیانک ہو جائے گا۔ کوئی تھاکہ جوخوبصورتی پیدا کرنا چاہتا تھا۔ انسان جو اپنے دل کی دھڑکن خود کنٹرول نہیں کر رہا‘ وہ اپنی آنتوں میں سے غذا کے اخراج کو ایک دو گھنٹوں کیلئے بخوبی روک سکتا ہے‘ورنہ کتنی شرمندگی ہوتی۔سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ اربوں چہروں میں ایک ہی جیسی 14ہڈیاں، 43مسلز اور ایک جیسی جلد موجود ہے۔ اس کے باوجود ہر چہرہ دوسرے سے مختلف ہے۔

اور یہی نہیں‘ ہرایک کی انگلیوں کے نشان مختلف ہیں۔ بعض اوقات انسان حیرت میں ڈوب کر رہ جاتا ہے۔ڈیزائننگ ہر طرف ہے۔ جو لوگ کائنات اور کرہ ارض کی ڈیزائننگ کو سمجھ رہے ہیں، وہ سائنسی طور پر ہم سے کہیں آگے ہیں۔ بہرحال اب امید کی جا سکتی ہے کہ کہیں سے ہم نے آغاز تو کیا۔