عمران بمقابلہ نواز

November 01, 2022

پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر اس وقت دو نام ہی نمایاں نظر آرہے ہیں۔ ایک نام پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ہے اور دوسرا نام تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کا ہے۔

دونوں اپنی عمر کے 70,70 سال گزار چکے ہیں۔دونوں الگ الگ صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہیں۔دونوں مقدر کے دھنی ہیں۔دونوں کے پاس وسائل کی فراوانی ہے،دونوں، لاکھوں لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔

ہر دو رہنماؤں کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔آنے والی الیکشن مہم کا سب سے محبوب موضوع یہی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ووٹ کی حقدار کون سی شخصیت ہے۔پاکستانی سیاست کے منظرنامے سے اٹھ کر اگر عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اقتدار ایسے افراد کے پاس ہے جو اپنی زندگی کی بہاریں انجوائے کر چکے ہیں۔امریکی صدر بائیڈن 80 سال،سابق امریکی صدر بھی تقریباً 80 سال،امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر کی عمر تقریبا 70 سال ہے

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی زندگی کے 70 سال گزار چکے ہیں، ان کی کابینہ بھی زیادہ تر بزرگ افراد پر مشتمل ہے۔ برطانیہ واحد ملک ہے جس کا وزیراعظم قدرے نوجوان ہے۔

دنیا کا دستور تو یہ ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ دانش میں اضافہ ہوتا ہے، طبیعت میں ٹھہراؤ آتا ہے، تجربہ میں اضافہ ہوتا ہے،پسند ناپسند کے معیار تبدیل ہو جاتے ہیں،محبت اور نفرت کی وجوہات بدل جاتی ہیں،لیکن کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے دونوں بڑے رہنما جو اپنی زندگی کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں ان کے لہجےہنوز تلخیوں سے بھرے ہوئے ہیں،ان کے الفاظ انگارے کی مانند،لہجے تلخ تر، اور چہروں پر تناؤ ہے۔شاید ملک کے معروضی حالات نے ان بزرگ رہنماؤں کی طبیعتوں پر اثرات مرتب کیے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ان کا کیریئر کامیابیوں سے بھرا ہوا ہے۔کرکٹ کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

ورلڈ کپ پاکستان کا مقدر ٹھہرا یا،سماجی خدمت کے میدان میں آئے تو شوکت خانم جیسا اسپتال بنا دیا،سیاست سے پہلے ہی عوامی اعتماد کا یہ عالم کہ بچوں نے اپنے جیب خرچ اور خواتین نے اپنے زیورات عمران خان کی جھولی میں ڈال دیئے،سیاست کے میدان میں آئے تو وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر رکھا۔وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے سے پہلے عمران خان نے طویل جدوجہد کی۔لیکن ان کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہوئی کہ اقتدار سے پہلے ان کے دوست اور تھے لیکن اقتدار کے بعد ان کے دوست بدل گئے۔ایک شخص پر اعتبار کیا تو چینی کا اسکینڈل انکے ساتھ جڑ گیا۔

ایک اور شخص پر اعتماد کیا تو وہ قبضہ گروپوں کا سرغنہ نکلا۔آج عمران خان کا لانگ مارچ دیکھیں تو یہ ان کے مشیروں اور ساتھیوں کے نامعقول مشوروں کا منطقی نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔ جس عمران خان نے چند دن قبل قومی اسمبلی کے چھ سیٹوں پر الیکشن جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا،آج اپنے مشیروں کے غلط اور غیر حقیقی مشوروں کی بدولت ایک ناکام لانگ مارچ لئے جی ٹی روڈ پر پھر رہا ہے۔جس عمران خان کی ایک کال پر ملک کے تمام بڑے شہروں میں ہزاروں لوگ اس کی تقریر سننے کے لیے جمع ہو جاتے تھے اس کی ٹیم اور ایم این ایز، لاہور سے چند ہزار لوگ بھی نہ نکال سکے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ادھر عمران خان لبرٹی سے نکلتا تو پورا ملک اپنے گھروں سے نکل پڑتا۔لیکن لاہور کے اراکین اسمبلی اپنے لیڈر کی کال پر ڈیفنس اور ماڈل ٹاؤن کے عوام کو بھی نہ نکال سکے۔یہ عمران خان کی نہیں بلکہ اس کے مشیروں اور ساتھیوں کی ناکامی ہے جنہوں نے ایک مقبول لیڈر کے طے کردہ پروگرام کا ستیاناس کر دیا۔

دوسری طرف میاں نواز شریف بھی قسمت کے دھنی ہیں۔کاروبار سے نکلے توچلتے چلتے وزارت عظمیٰ کے منصب پر جا پہنچے۔تین دفعہ وزیراعظم ہاؤس کے مکین بنے۔عوامی جدوجہد بھی کی۔کئی ترقیاتی منصوبے اپنے نام کیے۔ایٹمی دھماکے کیے۔میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے مقابلے میں میاں نواز شریف کی ٹیم اور مشیر زیادہ لائق اور قابل ثابت ہوئے ہیں۔

انہوں نے مناسب سمجھا تو نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئےاور جب مناسب سمجھا تو وکلا تحریک کی قیادت سنبھال لی۔ پورے ملک کو متحرک کیا اور گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی نہ صرف ججز بحال ہوگئے اور ان کی مقبولیت کا ستارہ بھی بام عروج تک جا پہنچا۔

2017 میں عدالتوں سے نااہل ہونے کے بعد بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے، اداروں پر شدید تنقید کے باوجود نہ صرف مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے بلکہ ایک مرتبہ پھر مقتدرہ کی آنکھوں کا تارا بن گئے اور ان کی جماعت اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔

میاں شہباز شریف کے طرز حکمرانی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک شدید متاثر ہوا ہے لیکن آج بھی میاں نواز شریف اس ووٹر کو واپس لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس اقتدار کا میاں نواز شریف کو ذاتی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو،یہ ضرور ہے کہ ان کی جماعت پاکستان کے اقتدار کے منصب پر متمکن ہے۔میاں نواز شریف جیسے جہاندیدہ لیڈر کے ہوتے ہوئے عمران خان کا لانگ مارچ، اتحادی حکومت میں کوئی خاص ’’ڈینٹ‘‘تو نہیں ڈال سکے گا البتہ اسے کمزور ضرور کردے گا۔

عمران خان اور نواز شریف کی قسمت میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی’’'اسحاق ڈار ‘‘نہیں جو انہیں حقائق پر مبنی مشورہ دے اور جب کام کرنے کا موقع دیا جائے تو ڈالر کو قابو کر کے بھی دکھائے اور مہنگائی کے پر کاٹنے کی کوشش بھی کرے۔اپنی ٹیم کی تشکیل کے لئے عمران خان کو میاں نواز شریف کے طرز عمل سے سیکھنا ہوگا۔اگر انہوں نے اپنے مشیروں اور ٹیم کو دوبارہ منظم نہ کیا تو یاد رکھیں جو حشر لانگ مارچ کا ہوا ہے، مستقبل میں یہ حشر ان کی سیاست کا بھی ہوسکتا ہے جو ملک کے لیے اچھا شگون نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)