میری سیاست، میری مرضی

November 01, 2022

کیا سیاست کا محور یہ بن گیا ہےکہ غیر آئینی وغیر قانونی بات نہ مانی جائے تو نہ ماننے والے غلط ہیں اور اگر غیر آئینی وغیرقانونی مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو پھر ان کی تعریف کی جائے۔ آخرکون لوگ ہیں جو عمران خان کو ایسے غیر منطقی اور غلط مشورے دیتے ہیں اور کیا عمران خان خود عقل وشعور اور سوجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ بھلا زور زبردستی اور دھونس سے کوئی حکومت حاصل کرسکتا ہے۔؟کیا ملک میں اس طرح کوئی وزیر اعظم بنا ہے۔ کیا جمہوریت میںکبھی ایسا ہوا ہے۔؟ راتوں کو منت ترلے کرنے اور دن کو بدزبانی اور دھمکیاں دینے والا اس بات کا مستحق ہوسکتا ہے کہ اس کوقومی یا سیاسی رہنما ہی مانا جائے وزیر اعظم کا منصب تودور کی بات ہے۔! یہ روش کسی صورت نہ سیاسی ہے نہ ہی جمہوری۔ آخر عمران خان چاہتے کیا ہیں۔ ذرائع کے مطابق جو وہ چاہتے ہیںایسا قطعی نہیں ہوگا۔

افواج پاکستان نے اگر دوران اقتدار عمران خان کا ساتھ دیا۔ جس کا اعتراف سینکڑوں مرتبہ عمران خان نے علی الاعلان کیاتھا کہ حکومت اور فوج ایک صفحہ پر ہے ،انہوں نے متعدد بار کہا تھا کہ تمام ملکی وحکومتی فیصلوں میں وہ بااختیار ہیں اور بطور وزیر اعظم وہ ہر فیصلہ خود کرتے ہیں، ان فیصلوں میں کسی طرف سے کوئی مداخلت ہرگز نہیں ہوتی۔ یہ تمام باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اس کے باوجود آج وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں تھا۔اگر ایسا تھا تو وہ یہ بھی وضاحت کردیں کہ وہ پہلے غلط بیانی کرتے تھے یا اب اپنی نا اہلیت اور ناقص کارکردگی کو چھپانےکیلئے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت نے عمران خان کا آئین کے اندر رہتے ہوئے ساتھ دیا تھا۔ اور آئین کے مطابق ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہر منتخب حکومت کے ساتھ ہے۔ اس میں نہ تو کوئی لاڈ ہوتاہے نہ ہی کوئی خصوصی طرف داری ۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان نے اعلیٰ عسکری قیادت کے تعاون کا غلط مطلب لیا یا وہ اس کو آئین کی روشنی میں سمجھ ہی نہیں سکے اورنہ اب تک سمجھ رہے ہیں۔ کوئی ان کو یہ باورکرائے کہ وہ تعاون فوج ہر حکومت کے ساتھ کرتی ہے اور عمران خان کی اب حکومت نہیں ہے۔ کوئی ان کو یہ سمجھائے کہ وہ اب وزیر اعظم نہیں ہیں، اس لیے آئین کے مطابق اب فوج ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرسکتی۔ عمران خان کا تو یہ حال ہے کہ وزیر اعظم بننے کے ایک ہفتے بعد انہوں نے خود بیان دیاتھا کہ ان کوتو ان کی اہلیہ محترمہ یہ یقین دلاتی ہیں کہ وہ اب وزیر اعظم ہیں، ان کا کوئی ہمدردانہیں یہ یقین دلائے کہ وہ اب وزیر اعظم نہیں ہیں۔

گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ایک مفصل پریس کا نفرنس میں نہ صرف عمران خان کی مسلسل غلط بیانیوںکی بلکہ ملکی صورتحال کی وضاحت بھی کی۔ عمران خان کی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو سوچ اور غیر آئینی مطالبات سے قوم کو آگاہ کیا۔ اس پریس کا نفرنس میں بہت سی باتوں سے قوم کو آگاہی ملی اور جھوٹ پر مبنی بیانات کا پردہ چاک ہوا۔ مرحوم صحافی ارشد شریف کی المناک موت پر جو جھوٹ بولاگیا تھا اس کی بھی وضاحت ہوگئی۔ ابھی توتحقیقات ہورہی ہیں مکمل ہونے پر بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آجائیں گے اور اس قتل کی وجوہات اور ملوث افراد کا تعین ہوجائے گا ۔ اس لیے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا۔

ویسے تو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے دوتین اجلاسوں میں نام نہاد سائفر کا قصہ صاف ہوچکا تھا لیکن عسکری ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے بعد اب کوئی شبہ ہی نہیں رہا کہ وہ سائفر محض ایک افسانہ اور من گھڑت بیانیہ تھا۔ عمرا ن خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کا جو غیر آئینی مطالبہ اعلیٰ وعسکری قیادت سے کیا اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو توسیع کا لالچ دینے کی جو کوشش کی ،اس ضمن میں اعلیٰ فوجی قیادت نے آئین کے مطابق اپنے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا تھا ۔جس کے بعد فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں عمران خان نے نازیبا الفاظ استعمال کئے ان تمام باتوں کی اس پریس کانفرنس سے قوم کو نہ صرف وضاحت ملی بلکہ عمران خان کی منافقانہ سیاست، ذاتی مفادات اور آئین وقانون کی پامالی کی کوششوں کا پردہ بھی چاک ہوا اور سچ اورجھوٹ واضح طور پر سامنے آگیا۔ اب عمران خان اقتدار کی ہوس میں قوم کے سامنے جو بھی بیان دیں قوم ان کی کسی بات کو نہیں مانے گی۔ اب قوم ان کو جان چکی ہے۔آج کل وہ ایک واک مارچ کررہے ہیں اور تمام تر آئینی وقانونی حدودوقیود سے بالاتر ہوکر ملکی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنے کی جوناکام کوششیں اور تقاریر کررہے ہیں اور ان بیانات سے جس طرح پڑوسی ملک کے میڈیا میں خوشی کے شاد یانے بجائے جارہے ہیں، اس سے بہت کچھ واضح ہوگیا ہے بلکہ مذکورہ پریس کا نفرنس میں کہی گئی بہت سی باتوں کے بارے میں ثبوت بھی مل سکتے ہیں۔ قابل تحریر توبہت کچھ ہے جو پھر کبھی ان شا اللہ کسی اور موقع پر کوشش کرونگا کیونکہ کالم کا دامن محدود ہے۔ فی الحال یہ ضرور عرض کرونگا کہ مزید کئی حقائق سامنے آنےکی امید ہے اور پھر ان پرکارروائی بھی ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)